بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں پر اسرار ہلاکت

Dec 22, 2020 | 22:06:PM

 (24نیوز) معروف بلوچ سیاسی کارکن اور بلوچ طلبا تنظیم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی پر اسرار ہلاکت، لاش کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے برآمد ہو گئی۔
تفصیلات کے مطابق کریمہ بلوچ اتوار سے لاپتہ تھیں اور ٹورنٹو پولیس کی جانب سے ان کی تلاش میں مدد دینے کے لئے پیغام جاری کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق کریمہ بلوچ کو آخری بار 20 دسمبر 2020 کو تقریباً دوپہر تین بجے دیکھا گیا تھا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھیں۔ٹورنٹو پولیس نے کریمہ بلوچ کے اہلخانہ اور ان کے ساتھ مقیم دوستوں کو ان کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کی لاش پولیس تحویل میں ہے جسے پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا۔واضح رہے کہ 37 سالہ کریمہ بلوچ کینیڈا میں پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم تھیں جبکہ سنہ 2016 میں برطانوی نشریاتی ادارے نے کریمہ بلوچ کو دنیا کی ’سو بااثر خواتین‘ کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔
 بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق رہنما اور کریمہ بلوچ کے سیاسی ساتھی لطیف جوہر کے مطابق اتوار کی دوپہر کریمہ نے اپنے اہلخانہ کو بتایا کہ وہ چہل قدمی کے لئے جارہی ہیں جس کے بعد سے ان کا کوئی پتہ نہیں چلا۔’شام تک جب کوئی خبر نہیں ملی تو انھوں نے خود بھی ڈھونڈا اور پولیس کو بھی اطلاع دی۔ پولیس نے ان کے پاس جو سٹریٹ کار (ٹرام) سفری کارڈ تھا کی آخری لوکیشن ٹورنٹو سینٹرل آئی لینڈ کی ظاہر کی جو دوپہر تین بجے کی تھی ۔لطیف جوہر نے بتایا کہ بعد میں پولیس نے بتایا کہ انہیں کریمہ کی لاش جزیرے کے پاس پانی سے ملی ہے تاہم موت کی وجہ ابھی تک نہیں بتائی گئی ہے۔
واضح رہے کریمہ اپنے شوہر اور بھائی کے ساتھ ٹورنٹو میں رہائش پذیر تھیں۔ لطیف جوہر کے مطابق کریمہ کی خواہش تھی کہ انہیں اگر کچھ بھی ہوجائے تو ان کی لاش کی تدفین بلوچستان میں ہی کی جائے۔
کریمہ کی بہن ماہ گنج بلوچ کے مطابق کریمہ بلوچ خوشی سے بیرون ملک نہیں گئی تھیں بلکہ جب وہ 2015 کے اختتام پر بی ایس او کی چیئرپرسن بنیں تو تنظیم نے فیصلہ کیا کہ وہ بیرون ملک جا کر تنظیم کی قیادت کریں گی کیونکہ یہاں ان کے لئے ا علانیہ کام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔انہوں نے بتایا کہ کریمہ بلوچ کی بیرون ملک جلاوطنی کے دوران ان کے ماموں ماسٹر نوراحمد بلوچ کو لاپتہ کیا گیا اور ان کی لاش جنوری 2018 میں ملی جبکہ ان کے ایک چچا زاد بھائی کریم جان کو بھی لاپتہ کیا گیا تھا اور ان کی بھی تشدد زدہ لاش ملی تھی۔ماہ گنج بلوچ نے دعویٰ کیا کہ جب ماموں لاپتہ تھے تو ان کے خاندان کو متعدد بار پیغام بھیجا گیا کہ وہ اگر اپنی سرگرمیاں ترک کرکے وطن واپس آ جائیں تو ماموں کو چھوڑ دیا جائے گا لیکن کریمہ اس کے لئے تیار نہیں ہوئیں تو ماموں کی لاش مل گئی۔

کریمہ بلوچ بلوچستان کے شہر تربت میں سنہ 2005 میں اس وقت پہلی بار سامنے آئی تھیں جب انہوں نے ہاتھ میں ایک لاپتہ نوجوان گہرام کی تصویر اٹھا رکھی تھی۔ یہ نوجوان ان کا قریبی رشتے دار تھا، نقاب پہنے ہوئے یہ نوجوان لڑکی کون تھیں صرف چند ہی لوگ جانتے تھے۔ ضلع کیچ کی تحصیل تمپ سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ کے والدین غیر سیاسی تھے تاہم ان کے چچا اور ماموں بلوچ مزاحمتی سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔کریمہ بلوچ کا شمار ان پہلی خواتین طلبہ رہنما کے طور پر کیا جاتا ہے جنھوں نے نئی روایت قائم کی اور تربت سے لے کر کوئٹہ تک سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔کینیڈا میں انہوں نے ایک سیاسی کارکن حمل سے شادی کر لی اور خود کو انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر سرگرم رکھا۔کریمہ بلوچ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا احتجاج ’جبری گمشدگیوں‘ اور ’ریاستی آپریشنز‘ کے خلاف ہوتا ہے۔کریمہ بلوچ نظریاتی طور پر بلوچستان کے سینئر قوم پرست رہنما نواب خیربخش مری کے قریب تھیں۔ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لیے جب کراچی میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ منتظمین میں شامل تھیں۔انھوں نے کراچی میں ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے ساتھ رابطہ کاری بھی کی اور انھیں بلوچستان کی صورتحال سے آگاہ کرتی رہیں۔

کریمہ بلوچ نے تربت سے بی اے کیا اور بعد میں بلوچستان یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا لیکن اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باعث تعلیم جاری رکھ نہیں سکیں، پاکستان میں حالات ناساز گار ہونے کے بعد وہ کینیڈا چلی گئیں جہاں انھوں نے سیاسی پناہ حاصل کی۔کینیڈا میں انھوں نے ایک سیاسی کارکن حمل سے شادی کر لی اور خود کو انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر سرگرم رکھا۔ وہ یورپ سمیت جنیوا میں انسانی حقوق کے حوالے سے اجلاسوں میں شرکت کرتی رہیں اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر اور فیس بک پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی تھیں۔بلوچ نیشنل موومنٹ نے کریمہ بلوچ کی ہلاکت پر چالیس روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔کریمہ بلوچ کو بلوچ خواتین میں سیاسی تحریک پیدا کرنے کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ستر برس کی تاریخ میں تنظیم کی پہلی خاتون سربراہ بنیں۔
واضح رہے کہ رواں سال مارچ کے مہینے میں ایک اور بلوچ پناہ گزین صحافی ساجد حسین سویڈن سے لاپتہ ہو گئے تھے اور کچھ وقت بعد ان کی لاش اپسالا سویڈن کے ایک دریا سے برآمد ہوئی تھی۔ ان کے عزیز و اقارب نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں قتل کیا گیا ہے تاہم پولیس کی تحقیقات میں یہ بات ثابت نہیں ہو سکی تھی۔

مزیدخبریں