مون لائٹ سینما کی فلم ، صرف بالغوں کے لیے
عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
پنجاب کے تمام سنیما گھروں میں شاندار نمائش جاری ہے، کیا نہیں ہے؟ اس فلم میں ایکشن ، ڈرامہ ، تھرل ، خوف ، جنات ، علم الغیب ، رومانس ، کامیڈی ،جنسی احساسات،عملیات و تعویزات، نسوانی حسن اور مردانہ وجاہت آئٹم سانگ ، اعلیٰ موسیقی ، پُر ترنم آواز ، نفسانی خواہشات ، امیری کے ششکے اور غریبی کی ملہار کے گانے سب کچھ توہے ، اتنا مصالحہ ہے کہ مولا جٹ ہو یا لیجنڈ آف مولا جٹ سب اس فلم کے سامنے ڈھیر ہوجائیں۔
اس سے پہلے کہ میں اس فلم کی کردار نگاری ، تصنیف کاری اور ہدائتکاری اور نام کا تذکرہ کروں ، مجھے مون لائٹ سینما کی بھی بات کرنا ہے یہ لاہور کا بدنام زمانہ اور ہمارے دور طالبعلمی کا مشہور زمانہ سینما بیڈن روڈ کے ایک کونے پر لکشمی چوک سے ذرا آگے تھا ،یہاں ایسی فلمیں چلائی جاتی تھی جن میں اداکارائیں نیم عریاں لباس میں ٹارزن کی باہوں میں جھول کر جنگل کے درختوں کی ایک ڈال سے دوسری شاخ تک کا سفر رسے پہ یوں طے کرتی تھیں کہ جیسے رسہ نہ ہو خیبر پختونخوا کا ہیلی کاپٹر ہو ،ہر سفر کے اختتام پر جب ہیرو لپ سٹک جو جنگل میں پتہ نہیں کون سا ملٹی نیشنل ملک مہیا کرتا تھا اس کی کوالٹی چیک کرتا تھا تو سینما ہال میں بیٹھا ہر شخص دانتوں میں اپنی انگلیاں چبانے پر مجبور ہوجایا کرتا تھا ،بوائز کالج ، پنجاب یونیورسٹی سمیت تمام تعلیمی اداروں کے نوجوان ، شہر بھر کے رکشہ ڈرائیور اور کوچوان ،ہلکی پھلکی کسرت کرنے والے سب پہلوان ایسی فلموں کے سامنے ڈھیر ہوجاتے ،مسئلہ صرف سب کو ایک تھا کہ کہیں اس سینما میں جاتے ہوئے کسی عزیز ،رشتہ دار ، دوست احباب اور محلے دار نے دیکھ لیا تو خواہ مخواہ شک کرے گا کہ ہم نظارے دیکھنے تو نہیں گئے حالا نکہ ہم جنگل بارے معلومات ، رسہ کے ذریعے ٹرانسپورٹ کے سسٹم یا دریا کے ٹھنڈے پانی میں فلمائے گئے مناظر کی معلومات لینے جارہے ہوتے تھے ۔
ضرور پڑھیں :آئینی طور پر پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب نہیں رہے: راناثنااللہ
مون لائٹ سینما کی نقل میں ٹکسالی سینما میں بھی ایک تھیٹر بنا تھا لیکن شاہی محلے کے ساتھ ہونے کے باعث وہاں سٹوڈنٹ نہیں جاتے تھے اس لیے وہ سینما سستا نشہ کرنے والوں ،مزدوروں اور بائیوں کے کوٹھوں پر رزق حلال کمانے والوں کی آمجگاہ ہوتا تھا ، ان سینماوں میں لگنے والی فلموں کے انگریزی ناام کچھ بھی ہوں مالکان انہیں سلیس اردو مین ہی بیان کیا کرتے ، فلموں کے نام کچھ یوں ہوتے ٹارزن کی واپسی ، حسینہ کا انتقام , ایک گوریلا ایک حسینہ ، سندر پریوں کا دیس ، پیار کی وادیاں ، سہانی رات کا دیا ، شہزادی کی شادی ، اور حسیناوں کی بربادی ، جنگل کا پھول ، کلب کی رانی ، مدہوش جوانی وغیرہ وغیرہ ان فلموں کے لیے تشہیری تانگے شہر بھر میں گھمائے جاتے ویسے تو باقی فلموں کی تشہیر بھی اسی طرح ہوتی تھی لیکن ان فلموں کی خاص بات یہ تھی کہ ان کے ناموں کے نیچے چھوٹے الفاظ میں لکھا ہوتا تھا "صرف بالغوں کے لیے " جس کا مطلب ہی یہ تھا کہ نوجوان جو ابھی بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے وہ اور جو بلوغت کے بعد بڑھاپے کی جانب قدم بڑھا چکے ہیں وہ اس فلم کو ضرور دیکھیں ۔
یہ بھی پڑھیں : عمران خان کا بُت، نازک حصے پر چوٹ لگا دی گئی
بات زیادہ لمبی ہوجائے گی اور کہاں سے کہاں چلی جائے گی ،مجھے بتانا ہے کہ نئی فلم کا نام اور اس کی کاسٹ کیا ہے؟جناب ہماری اس فلم میں لکھی گئی تمام فلموں سےزیادہ کامیابی کا مصالحہ ہے اور اس کی تشہیر پر بھی لکھا گیا ہے "صرف بالغوں کے لیے " اس لیے سیاسی یا ہیجانی نا بالغ اس فلم کو نہ دیکھیں فلم کا نام ہے "میں پنجاب نہیں چھوڑوں گی " فلم کی ہیروین جو کچھ کچھ بے وفا ہے نام کےساتھ چودھری لگتا ہے ہیرو خان برادری کا ہے اور ان دنوں گھائل ہے ،دونوں بال بچے دار ہیں فلم کا ٹوئیسٹ ہی یہ ہے کہ ان دونوں کی محبت کو پروان چڑھایا بھی ہیروئن کے بیٹے نے ہے لیکن کچھ دنوں سے ہیروئن اپنے ہیرو سے بیزار ہے اُس کی وجہ فلم کے سکرپٹ میں شامل چند اورحسیناؤں کا کردار ہے ، ٹیلی فون کی ریکارڈنگز کے جذبات اور پی ڈیم کی للکار کے ساتھ شرطیہ نئے پرنٹس میں فلم کی نمائش پنجاب بھر میں جاری ہے ۔
مزید پڑھیں : خبردار ، ہوشیار!!آڈیوز کی ویڈیوز بھی موجود ہیں
فلم کے کلائمکس کا سب کو انتظار ہے، گورنر پنجاب اس فلم میں ایک ولن کا کردار ادا کر رہے ہیں ہیرو اور ہیروئن دونوں گورنر کے ہاتھوں اپنی عزت بچانے کے راستے تلاش کر رہے ہیں ہیرو ایک رسے کا منتظر ہے جو اسے ہیروئن سمیت اس دلدل سے نکال باہر کرے جبکہ فلم کے ولن اس کے لیے پوری طرح تیار ہیں کہ اب کہ یہ بچ نہ پائے ،مون لائیٹ سینما اگر آج بھی موجود ہوتا تو شائد سب سے ذیادہ کمائی اسی سینما کی ہوتی لیکن افسوس 90 کی دہائی میں اس سینما کو گرادیا گیا اور اب یہ فلم سلور سکرین سےزیادہ ٹی وی سکرینوں پر چل رہی ہے اس فلم کے ٹیلی فونک ترانے ہینڈ فری اور واش رومز میں بیٹھ کر سنے جارہے ہیں ،فلم کے جذبات کے اظہار کے لیے 8 بجے خصوصی شو چلائے جارہے ہیں 9 سے 12کے تمام شو پہلے سے ہی بُک ہوتے ہیں ،فلم کے ہدایتکار خاموشی سے اپنا کام کر رہے ہیں مصنف کلائمکس لکھ چکا جس میں ہیروئن اور ہیرو کے عشق میں ناکامی ہوگی اور دونوں باہوں میں باہیں دالے گمنامی کی اتھاہ گہرایوں میں اُتر جائیں گے اور باقی رہے عوام تو پنجاب کے اس ملٹی سکرین بڑے مون لائیٹ سینما سے خالی ہاتھ باہر نکل کر تبصرہ کریں گے کہ مزہ تو نہیں آیا لیکن فلاں سین نے "رونگٹے ضرور کھڑے کردئیے " اور یہ وفاقی فلم کا پارٹ 2 ہے ، حسینہ کی واپسی پہلےپارٹ میں ہیرو گیا تھا اب کہ ہیروئین بھی جائے گی ،اب بتائیں فلم کیسی ہے ؟