(ویب ڈیسک )چند دن قبل امریکی اسٹریمنگ سائٹ نیٹ فلکس پر 2021 میں ریلیز ہونے والی فلم فرحہ ریلیز کی گئی اور اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی۔ اسرائیلی شہر جافا کے ایک تھیٹر میں جہاں یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی جانی تھی ریاست نے اس تھیٹر کی فنڈنگ روکنے کا بھی ارادہ کرلیا،فلم فرحہ کو اسرائیل نے اپنے خلاف پروپگینڈا قرار دیا ۔ فلم میں ایسا کیا دکھایا گیا اس پر ایک طرف سوشل میڈیا پر جہاں بحث کی اجرہی ہے وہیں اسرائیل آفیشلز کی جانب سے بھی شدید رد عمل سامنے آیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق فلم کی کہانی ایک فلسطینی لڑکی فرحہ کی ہے جس کا گاؤں 1948 میں ہونے والے اسرائیل فلسطین تنازعے کے باعث اسرائیلی فورسز کے نشانے پر ہے، حالات بگڑنے پر اپنے ہی گھر کے ایک حصے میں چھپنے والی یہ لڑکی اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک فلسطینی فیملی کا قتل ہوتے ہوئے دیکھ لیتی ہے ۔یہ کردار ایک ایسی 14 سالہ لڑکی کا ہے جو گاؤں کی روایات کو پس پشت ڈال کر اپنا خواب پورا کرنے کی ٹھان لیتی ہے لیکن اس کے گاؤں پر اسرائیلی فوج کا حملہ سارے خواب چکنا چور کردیتا ہے ۔
اب یہ کہانی، اسرائیل فلسطین تنازعے کے حقیقی واقعات پرمبنی ہونے کی وجہ سے دیکھنے والوں کو فلسطین میں گزرنے والی زندگی کی جھلک دکھا رہی ہے جس سے لوگ متاثر ہوکر فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں ۔فلم میں ڈائریکٹر دارین سلام نے اسرائیل کے حملے سے پہلے جو فلسطین دکھایا ہے وہ دیکھنے والوں کو اس سرزمین کی خوبصورتی کی تعریف کرنے پر مجبور کردیتا ہے ، اس میں کمال بات یہ ہے کہ یہ کہانی آپ کو اس دنیا میں لے جائے گی جہاں آپ ہر کردار کو قریب محسوس کر سکیں گے ۔
ایکسٹراز میں نظر آنے والے بچے حقیقت میں فلسطینی مہاجرین ہیں ، جن کے متعلق ایک انٹرویو میں ڈائریکٹر نے بتایا کہ فلم میں ایک سین گھرانوں کے بچھڑنے کا ہے جب یہ سین کٹ ہوا تو سارے بچے اپنے آنسوں صاف کر رہے تھے، یہ کہانی ان سے اتنی قریب ہے کہ ایک سین نے انہیں اپنے اوپر گزرنے والے واقعات کی یاد دلادی تھی۔ٹوئٹر پر کچھ دن قبل اس فلم کے بارے میں ٹرینڈ چلا جہاں لوگ مختلف خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے ۔
بعض نے نیٹ فلکس پر تنقید کی کہ وہ فکشن کے ذریعے یک طرفہ کہانی کیسے دکھا سکتے ہیں خاص طور پر فلم کا وہ حصہ جس میں ایک فلسطینی گھرانے کو اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں قتل ہوتا دکھایا گیا ہے ۔
یہ فلم 1948 کے ان واقعات پر مبنی ہے جو ایک 14 سالہ نوجوان لڑکی نے فلسطین کی سرزمین پر خود دیکھے ہیں، ڈائریکٹر دارین سلام نے فلم سے متعلق ایک انٹرویو میں بتایا کہ:’یہ کہانی 1948 میں فلسطین کی رہنے والی رضیہ نامی خاتون نے شام پہنچنے پر ایک نوجوان لڑکی کو سنائی تھی اس لڑکی نے ایک بیٹی کو جنم دیا اور وہ بیٹی میں ہوں‘، انہوں نے کہا کہ یہ کہانی میری والدہ نے مجھے سنائی تھی اور تب سے میں نے اس لڑکی کے بارے میں سوچنا شروع کیا ۔