(ویب ڈیسک) آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان سے پاور ہولڈنگ کمپنی پر مارک اپ وصولی کے لیے صارفین سے تقریبا 3 روپے فی یونٹ بجلی سرچارج عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف نے چائنہ ڈیولپمنٹ بینک (CBD) سے 700 ملین ڈالر کے قرض کی ری فنانسنگ کے اہم معاہدے کے ساتھ حکام پاکستان سے کہا ہے کہ وہ پاور ہولڈنگ کمپنی پر پڑے مارک اپ کی وصولی کے لیے صارفین پر تقریبا 3 روپے فی یونٹ بجلی سرچارج عائد کر دے۔
حکومت پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا نجی اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ امید ہے کہ تمام چینی پختہ قرضے جلد ہی ری فنانس کیے جائیں گے۔جبکہ ذرائع کے مطابق 500 ملین ڈالرز اور 800 ملین ڈالرز کے دو مزید تجارتی قرضوں سمیت حکومت فروری کے آخر یا مارچ کے پہلے ہفتے تک 2 ارب ڈالر کے چینی قرضوں کی ری فنانسنگ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
تاہم خسارے میں جانے والا پاور سیکٹر اب بھی ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ پر اب تک دستخط نہیں ہو پا رہے۔ اس لیے حکومت کو اسٹاف لیول معاہدے کی جانب بڑھنے کیلئے پاور سیکٹر پر ایک اور سرچارج لگانے کے بارے میں اپنا ذہن بنانا ہوگا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک: قافلے شاہراہ قائد اعظم پہنچنے لگے
پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان گزشتہ شب اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے ورچوئل بات چیت ہوئی جس میں فریقین نے ایک اور سرچارج لگانے کے امکان پر تبادلہ خیال کیا لیکن فریقین سرچارج کی رقم طے کرنے پر ابھی تک متفق نہیں ہو سکے۔
پاور سیکٹر کے مسلسل خسارے کے پیش نظر آئی ایم ایف (IMF) نے فوری طور پر 3 روپے فی یونٹ بجلی سرچارج لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے حکام پاکستان کو آگاہ کر دیا ہے کہ ملک کو بقاء یا تقصان کی طرف لے جانے والا پاور سیکٹر جمود کے ساتھ نہیں چل سکتا اس لیے وقت ضائع کیے بغیر اس شعبے میں اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دوسری جانب حکومت پاکستان نے گزشتہ مالی سال 2021-22 کے دوران نقصانات کی مد میں مجموعی طور پر 1600 ارب روپے ادا کیے۔ جو کہ بجٹ دستاویزات میں دکھائے گئے دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ ہیں۔ پاور سیکٹر کا خسارہ اس گردشی قرض میں پاکستانی معیشت کو لے ڈوبے گا۔
آئی ایم ایف مذاکرات کمیٹی میں شامل حکومتی نمائندے کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اب بھی سرچارج کے معاملے پر بات کر رہے ہیں اور حکومتی صفوں میں اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے اب بھی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔جبکہ حکومت کے کچھ حلقوں کا یہ مؤقف ہے کہ ایک اور بجلی سرچارج لگا کر ٹیرف بڑھانے کی بجائے بہتر آمدنی یا اخراجات میں کمی کے ذریعے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔