مغربی ممالک کی نئی صف بندی
اسلم اعوان

Stay tuned with 24 News HD Android App

امریکی صدر ٹرمپ کا روس کے ساتھ دائمی کشمکش کو ختم کرنے کا رجحان سفید فام نسل کے تحفظ کے علاوہ اُس کیتھولک مذہب کے احیاء کی آخری کوشش نظر آتا ہے ، پچھلے 200سالوں میں جسے جدیدیت ، آزاد خیالی اور جمہوریت جیسی رومانوی تحریکوں نے پس منظر میں دھکیل کے مغربی معاشروں کی تہذیبی بنیادوں کو اکھاڑ کر انہیں اباحیت ، ذہنی پراگندگی اور بے مقصدیت کی تاریکیوں میں دھکیل دیا تھا ۔
ریپبلکن پارٹی میں قدیم سماجی روایات کی بحالی کا احساس 1990 کی دہائی میں پیدا ہو چکا تھا جب انہوں نے پارٹی منشور میں شرم و حیا پر مبنی اخلاقی اقدار ، خواتین کی عفت و عصمت کے تحفظ پہ مبنی سماجی روّیوں اور خاندانی نظام کی بحالی کی سکیم متعارف کرائی تھی لیکن واحد عالمی طاقت کی حیثیت سے دنیا پہ اپنی بالادستی قائم کرنے کی مصلحتوں کے پیش نظر انہیں اِس منصوبہ کو مؤخر کرنا پڑا تھا ۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مغربی معاشروں سے مذہبی ثقافت اور اخلاقی روایات کی بیخ کنی کے ذریعے مغربی عوام کو بے مقصدیت کی تیرگی تک پہنچانے کے محرک صیہونی تھے ، جنہوں نے 16ویں اور 17ویں صدی میں عیسائیت کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے تھے ۔ چنانچہ آج اِسی ثقافتی زوال کے سامنے بند باندھنے کے پہلے مرحلہ میں صدر ٹرمپ یوروپ اور امریکہ کو صیہونی بالادستی کے آشوب سے نجات دلانے کی خاطر اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی سرکشی کو نکیل ڈالنے کے علاوہ کینڈین وزیراعظم جسٹیئن ٹریڈو اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زنلسکی کی گوشمالی کرنے والے ہیں ۔
اوسوالڈ اسپنگلر نے اپنی مشہور کتاب ''زوال مغرب '' میں کہا تھا کہ مغرب معاشروں نے مذہب کو ترک کرکے اپنی گداز ثقافت ، سماجی نظم و ضبط اور اخلاقی نظام کو موت کے گھاٹ اتار دیا ، چنانچہ انقریب بے مقصدیت کا آسیب انسانی روحوں کو تاریک بنا دے گا ، امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اگرچہ یوروپ نے امریکی قیادت میں دوسری جنگ عظیم کے بعد عروج اور خوشحالی کا لطف اٹھایا لیکن مغرب اپنے ثقافتی زوال کی وجہ سے تیزی سے کمزور ہوتا چلا گیا اور 21 ویں صدی کا نیا سچ یہی ہے کہ جس مغربی دنیا کو ہم جانتے ہیں وہ تیزی سے اپنی اہمیت کھو رہی ہے جس کی جگہ ایک نیا بین الاقوامی نظام لینے والا ہے ، جو بریکس یا ان سے بھی زیادہ مقبول وہ جغرافیائی ہستی ،ایشیا، ہو سکتا ہے،وقت کی انہی سرکش لہروں کو روکنے کی خاطر واشنگٹن ، ماسکو کے ساتھ یوکرین جنگ کے خاتمہ کے لئے سرگرداں ہے ، امریکی صدر نے زور دیتے ہوئے کہا ، اگرچہ زیلنسکی یوکرین کی سرزمین پہ لڑائی جاری رکھنے کے خواہش مندانہ مقاصد رکھتے تھے لیکن ہم روس کے ساتھ جنگ بندی کے لئے کامیابی سے بات چیت کر رہے ہیں ۔
اسی تناظر میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے جمعہ کو یورپی رہنماں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، ان کی سلامتی کو خطرہ چین اور روس نہیں بلکہ'' اندر سے'' ہے ،وینس نے بحثیت نائب صدر اپنی پہلی تقریر میں یورپی سیاست دانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا '' وہ مذہبی اور سماجی آزادیوں کو دبانے اور دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ کام کرنے سے گریز کے علاوہ امیگریشن پر کنٹرول کھو رہے ہیں '' میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے سامعین ٹرمپ انتظامیہ کے یوکرین جنگ خاتمہ کے منصوبوں بارے کچھ سننے کی توقع کر رہے تھے لیکن اس کے برعکس امریکی نائب صدر نے انکے اُس لبرل طرز عمل کو مسترد کر دیا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی یورپ میں رائج تھا اور جس نے قانون تشدد کے ذریعے مذہبی و اخلاقی اقدار اور سماجی نظم و ضبط کو کچل کر مغربی ثقافت کو اجاڑ ڈالا ۔
یہ غیر معمولی تبصرے ایسی مہمات کے بعد سامنے آئے جن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی جمود کو توڑنے کا عزم ظاہر کیا جو کیتھولک ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے لئے ناگزیر ہے ، چنانچہ وائٹ ہاوس کی جانب سے کھلی حمایت کے بعد پورے یورپ میں دائیں بازو کی تحریکوں کو وسعت ملنے لگی ۔ میونخ میں نائب صدر کے ریمارکس جرمنی کے قومی انتخابات سے صرف ایک ہفتہ قبل سامنے آئے ، جس میں ملک میں انتخابی مہم کے موسم کے باعث بڑے پیمانے کے تغیرات کی توقع کی جا رہی ہے جہاں امیگریشن نئے الیکشن کا سُلگتا ایشو بنا چکا ہے ۔ جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) پارٹی ،جو ٹرمپ انتظامیہ اور ایلون مسک کا یکساں ساتھ دے رہی ہے ۔ اے ایف ڈی 23 فروری کے انتخابات سے قبل تقریبا21 فیصد پولنگ حاصل کر رہی ہے ، جس سے پارٹی جرمنی کی دوسری بڑی سیاسی قوت بن کر دوسری عالمی جنگ کے بعد پوزیشن پر فائز ہونے والی انتہائی دائیں بازو کی پہلی جماعت بن جائے گی ، وینس نے جمعہ کے روز اس فائر وال پر تنقید کی جس کی وجہ سے جرمنی کے اندر دیگر بڑی جماعتوں کو AfD سے دور رکھا گیا، وینس نے اے ایف ڈی رہنما ایلس ویڈل سے تقریباً 30 منٹ تک ملاقات کی ، جس میں دونوں نے یوکرین جنگ اور جرمنی کی سیاست پر تبادلہ خیال کیا ۔
اے ایف ڈی پارٹی ایشیا سے نقل مکانی کے رجحان اور ملک میں یہودیوں کی آبادی کاری کی شدید مخالف ہونے کے علاوہ یوروپی یونین کے اتحاد کے خلاف بھی مزاحمت کرتی ہے ، جرمنی میں اس جماعت کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ 1900 کی دہائی میں امریکہ، براعظم یوروپ کی اقتصادی اور فوجی طاقت کو منقسم رکھنے میں مفاد تلاش کرتا تھا لیکن مغربی تہذیب کے ممکنہ زوال کے پیش نظر امریکہ اب یوروپ میں صیہونی دشمن جرمنی کی بالادستی اور روس کی نیٹو میں شمولیت کا متمنی ہے بلکہ عملی طور پر، اس مقصد کو حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ روس اور چین کے تال میل سے پنپنے والے ایشائی غلبہ کو ابھرنے سے روکا جائے بلاشبہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں واشنگٹن نے جرمنی کو یورپ پر غلبہ پانے سے روکنے کے لیے جنگ کی تھی لیکن اب وہ جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی انٹی صیہونی جماعت کی حوصلہ افزائی کے ذریعے یوروپ پہ جرمن بالادستی کی راہیں کشادہ کرنے میں مشغول ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ1951 میں بھی ، یورپ میں اتحادی افواج کے سپریم کے طور پر ، آئزن ہاور نے نوٹ کیا تھا ، اگر دس سالوں میں قومی دفاع کے مقاصد کے لیے یورپ میں تعینات تمام امریکی فوجیوں کو امریکہ واپس نہ بُلایا گیا تو یہ پورا منصوبہ ناکام ہو جائے گا ۔ اس مقصد کے لیے صدور ہیری ٹرومین اور آئزن ہاور نے فرانس، برطانیہ، مغربی جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ریاستوں کو سوویت یونین کے خلاف اپنے سیاسی ، اقتصادی اور فوجی وسائل کو یکجا کرنے کی ترغیب دے کر یورپی طاقت کی تیسری قوت کے طور پہ اکٹھا کرنے کی سکیم بنائی جو ایک بار تشکیل پانے کے بعد بطور تیسری قوت امریکہ کو یورپ کے دفاع کی پہلی لائن کے طور پر کام کرنے کے فرض سے سبکدوش کر دیتی تاہم 1950 کی دہائی کے آخر اور 1960 کی دہائی کے اوائل میں یہ واضح کیا گیا کہ مغربی یورپی ریاستیں جرمنی کے بارے میں اتنی ہی فکر مند ہیں جتنی کہ وہ سوویت یونین بارے حالانکہ یہ مصنوعی تاثر تھا جو یہودیوں کی عیارانہ بے چینی کی کوکھ سے نمودار ہوا تھا اس لئے امریکہ نے ہچکچاتے ہوئے نیٹو اتحاد میں زیادہ پائیدار کردار قبول کر لیا تھا لیکن آج صورتحال بالکل مختلف ہے ۔
صدیوں میں پہلی بار، یورپ میں ایک ممکنہ بالادستی کا فقدان ہے اور ایک بار پھر جرمنی میں یوروپ کی قیادت کرنے کا احساس انگڑائیاں لے رہا ہے مگر یہاں آج احساس یہ نہیں کہ امریکہ کو یوروپ کے دفاع سے الگ کیا جائے بلکہ امریکی کردار کو فرسٹ ریزورٹ فراہم کرنے والے سے آخری حربے کے توازن کی طرف منتقل کیا جائے ۔ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ سب سے پہلے ، امریکہ کو یورپ سے اپنے کچھ فوجیوں کو واپس بلانا چاہیے اور یورپ کو واپس یورپی کندھوں پر محفوظ کرنے کے لیے درکار روایتی افواج فراہم کرنے کی ذمہ داری لینے پہ قائل کیا جائے۔
اس وقت امریکہ کے تقریباً ایک لاکھ فوجی یوروپ میں تعینات ہیں، جن کی سب سے زیادہ تعداد جرمنی میں ہے ۔ ممکنہ انخلا کی شروعات2022 میں بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے یوکرین پر روسی حملے کے بعد تعینات کیے گئے 20,000 اضافی فوجیوں کی واپسی سے ہوگی ، ایک بار جب ان فوجیوں کو نکال لیا گیا تو واشنگٹن کو جرمنی سے 12,000 فوجیوں کا انخلا دوبارہ شروع کرنے کااپنا ارادہ ظاہرکرنا پڑے گا ، یہ ایسا منصوبہ ہے جسے ٹرمپ نے منظور کیا مگر بائیڈن منجمد کر گئے ۔ فوجیوں اور مٹیریل کا انخلا، جو کہ موجودہ امریکی قیادت کا واضح اظہار ہے ، اس عمل کو تیز کرے گا ، جس سے یورپی ریاستوں کو اپنے دفاع کی ذمہ داری اٹھانے کی ضرورت ہوگی بلکہ اس میں جرمنی کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے امریکی مخالفت کا از سر نو جائزہ لینا بھی شامل ہے ، چنانچہ اب اس بات کا امکان موجود ہے کہ جرمنی کسی بھی قابل فہم منظر نامے میں ایٹم بم تک پہنچ جائے گا ۔
یہ بھی پڑھیں: پاک ترک تعلقات نئی بلندیوں پر