خیرات کا پیسہ سرمایہ کاری پر لگانے والےعمران خان صادق اور امین ہیں؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) خیرات کا پیسہ سرمایہ کاری پر لگانے والےعمران خان صادق اور امین ہیں؟ ۔پی ٹی آئی چیئرمین کے اعتراف کے بعدملک میں نئی بحث چھڑ گئی ۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ عمران خان صادق اور امین نہیں ہیں کیونکہ عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے خیرات کے نام پر جو پیسہ اکٹھا کیا ہے وہ سیاست اور دیگر کاموں میں استعمال ہو رہا ہے۔اسلام آباد میں ایڈیشنل جج کی عدالت میں10 ارب روپے ہرجانہ کیس کی سماعت میں ویڈیو لنک پیشی کے دوران چہئرمین پاکستان تحریک انصاف(PTI) عمران خان نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے شوکت خانم فنڈز کی رقم سے نجی ہاوٗسنگ پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ ممبرز نےسرمایہ کاری کی ہوئی رقم واپس جمع کروا دیے ہے۔
واضح رہے کہ فنڈز کی مالیت 3 ملین ڈالرز تھی۔ خواجہ آصف کے وکیل کا کہنا تھا کہ جب رقم لی گئی تب ڈالر کی قیمت 60 روپے تھی اور جب واپس کی گئی تب ڈالر کی قیمت 120 روپے تھی اور 100 فیصد منافع جو اس رقم سے حاصل کیا گیا وہ بھی جمع نہیں کروایا گیا۔
ضرور پڑھیں :عمران خان کا شوکت خانم ہسپتال کے فنڈز کی نجی ہاﺅسنگ پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کا اعتراف
24 نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار میاں طاہر کا کہنا تھا کہ عمران خان کا خود اعتراف کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں۔ یہ تو ایک اعتراف ہے ابھی بہت کچھ اور آنا باقی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خواجہ آصف کے دیے گئے بیان پر عمران خان نے کہا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک میں خیرات کا کام ہوتے نہیں دیکھ سکتے ان کو شرم بھی نہیں آتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی علیمہ خان کا معاملہ بھی سامنے آنے والا ہے جو کہ شوکت خانم بورڈ آف گورنرز کی ممبر ہیں جنہوں نے فنڈز کی رقم سے سلائی مشین پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کی۔بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی آف شور کمپنی کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔
ان کامزید کنہا تھا کہ عمران خان ماضی میں بھی اس طرح کے کام کرتے آ رہے ہیں، ووڈن کرکٹ کلب والا معاملہ بھی کافی واضح ہے کہ کس طرح باہر سے شوکت خانم کے نام پر خیرات کے پیسے اکٹھے کیے گئے جن کو پاکستان میں تین چار بڑے کاروباری افراد نےاستعمال کیا اور پھر منی لانڈرنگ کے ذریعے اس پیسے کو ملک سے باہر بھیجا گیا۔ یہ کاروباری حضرات زیادہ دیر تک اپنا منہ بند نہیں رکھ پائیں گے اور ماضی میں انویسٹیگیشن افسروں اور اداروں کو دباوٗ میں رکھا گیا۔