(ویب ڈیسک )’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا‘‘، یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب ہم میں سے کوئی اپنے اقدار ، رہن سہن اور بولی کی بجائے کسی اور شخص کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے یا پھر اپنی مادری زبان کی بجائے کسی اور کی زبان بولنے کی کوشش کرے لیکن وہ اس میں پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے ۔
ہماری سوسائٹی کا ایک بڑا ا لمیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی زبان اپنے لباس اور رہن سہن کے بجائے انگلش زبان ، مغربی لباس اور رہن سہن کو بہتر سمجھتے ہوئے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ، بہت سے لوگ انتہا کی محنت اور پریکٹس کے بعد اس پر عبور بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بے وجہ ہی کسی پر دھاک بٹھانےیا روب جھاڑنے کیلئے انگلش زبان کا سہارا لیتے ہیں لیکن مہارت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں منہ کی کھانی پڑتی ہے اور مذاق الگ سے بنتا ہے ۔
ایسی ہی ایک ویڈیو منچن آباد کے تحصیلدار صاحب کی وائرل ہو رہی ہے جس میں رپورٹر اپنی مادری زبان سرائیکی میں ان سے پوچھتا ہے کہ ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ لوگوں سے رجسٹری یا انتقال کے پیسے لے لیے جاتے ہیں لیکن وہ پیسے حکومتی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے سرکاری افسران کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں اور لوگ پھر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں،جس پر تحصیلدار صاحب مادری زبان کے بجائے جوا ب کیلئے انگلش زبان کا استعمال کرتے ہیں اور پھر ایسی ایسی انگلش جھاڑتے ہیں کہ دیکھنے والے بس دیکھتے رہ گئے۔
کچھ لوگ ویڈیو پر کمنٹ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’’سرائیکی زبان میں انگریزی بولنے کا شاندار مظاہرہ‘‘ ، تو کوئی تحصیلدار صاحب کا مذاق اُڑا رہا ہے کہ ویڈیو کے شروع میں جس طرح وہ خود کو سنوار رہے تھے دراصل وہ انگلش کے اس معرےکے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہے تھے ، کچھ لوگ ان کے کنفیڈنس کی بھی داد دے رہے اور کہہ رہے ہیں کہ اچھی کوشش تھی ۔