9 رکنی بنچ کو بنچ تصور ہی نہیں کرتا،جسٹس قاضی فائز عیسی علیحدہ ہو گئے

Jun 22, 2023 | 13:13:PM

(24 نیوز )فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت  کیلئے بنایا گیا 9 رکنی بنچ ٹوٹ گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے  بنچ سے خود علیحدہ کر لیا۔ 

 تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9رکنی لارجر بنچ نے سماعت  شروع کی ، 9 رکنی لارجر بنچ میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بھی شامل تھے ان کے علاوہ جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر،جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بنچ کا حصہ تھیں۔
سماعت شروع ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے،میں اپنی اردو قومی زبان میں بات کروں گا،سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں،آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے،جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق 3رکنی کمیٹی سماعت بارے فیصلہ کرے گی، مجھے رات کو 8بجے کیس کی سماعت کا بتایا گیا،پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے آٹھ رکنی بنچ نے روک دیا،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کو جولائی تک ملتوی کیا گیا،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس سے متعلق رائے نہیں دونگا کیوں اس بنچ کا حصہ نہیں ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ  تعجب ہوا کہ کل رات 8 بجے کاز لسٹ میں میرا نام آیا، مجھے دکھ،صدمہ اور تعجب ہوا کہ رجسٹرار نے 15 مارچ کا میرا فیصلہ نظرانداز کرنے کا سرکولر جاری کیا،اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بنچ میں سماعت کیلئے مقرر ہوا، میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تین میں رولز بنائے جائیں،میرے فیصلے کو واپس لینے کا حکم جاری ہوا کیا یہ سپریم کورٹ کی عزت ہے؟میرے نوٹ کو سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ سے ہٹا دیا گیا۔

نوٹ ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں،غلط خبریں چلتی ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

میں آئین و قانون اور حلف کے مطابق فیصلے کروں گا،یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی؟پھر سپریم کورٹ نے 6 ممبر بنچ بنا کر سرکولر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا، میرے دوست یقینا مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا، اس 6ممبر بنچ میں اگر نظر ثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا، اب تو نوٹ ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں جس کی غلط خبریں چلتی ہیں،بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی۔ 

فیصلے کی مخالفت نہیں کر رہا طریقہ کار کی بات کر رہا ہوں 

جسٹس قاضی فائز عیسی  کا مزید کہنا تھا کہ بنچز کی تشکیل سے متعلق ایک قانون بنا دیا گیا،کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ میں حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پر بنچ میں بیٹھوں،میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جا سکتا ہے معطل نہیں کیا جا سکتا،حکومت پاکستان نے انکوائری کمیشن بنایا مجھے اس کا سربراہ بنایا گیا،19 مئی کو سپریم کورٹ کے پانچ ممبر بنچ نے انکوائری کمیشن کو کام سے روک دیا،
میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کر کے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، انکوائری کمیشن نے نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا، میں واضح کر دوں کہ کسی فیصلے کی مخالفت نہیں کر رہا صرف طریقہ کار کی بات کر رہا ہوں،آج کے 9رکنی بنچ کو بنچ تصور نہیں کرتا۔

پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ کریں 
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے کہا کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کا فیصلہ کرے،مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں عمران خان نیازی کی بھی درخواست تھی،عمران خان کی درخواست پر اعتراض لگایا اور انہوں نے پہلے درخواست دائر کی تھی، آج کاز لسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کر دی گئی، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہونے تک کسی بنچ میں نہیں بیٹھوں گا،سب سے معزرت چاہتا ہوں کہ ججز کو زحمت دی،میں بنچ سے اٹھ رہا ہوں،یہ عدالت نہیں ہے جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ نہیں ہوتا۔

جسٹس سردار طارق مسعود  نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تائید کر دی 
جسٹس سردار طارق مسعود  نے  بھی جسٹس قاضی فائز عیسی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کا فیصلہ ہونا چاہیے،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ ہونے سے قبل سپریم کورٹ کوئی کیس نہیں سن سکتی،ہم نے سپریم کورٹ رولز بنانے کا کہا اس پر کچھ نہیں کیا گیا،اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ محترم ہیں مگر مزید بات کر کے شرمندہ نہ کریں،میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں۔

 کیس کا کچھ اور راستہ نکال لیں گے،چیف جسٹس پاکستان 

 سینئر وکیل لطیف کھوسہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائے گی؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال  نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے قاضی صاحب کو اطلاع نہ ہو کہ حکومت نے قانون پر مشاورت کیلئے وقت مانگا ہوا ہے،2ججز نے سماعت نہ کرنے کا کہا ہے ہم ان کا احترام کرتے ہیں،اس کیس کا کچھ اور راستہ نکال لیں گے،

دو ججز نے سماعت نہیں کرنی تو ہم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔

آپ سپریم کورٹ میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں،اعتزاز احسن 

 سینئر وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے بنچ سے علیحدہ ہونے والے ججز سے کہا کہ گھر کے تحفظ کیلئے کیس سن لیجیے، آپ سپریم کورٹ میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں، چیف جسٹس پاکستان  نے مزید کہا کہ 2معزز سینئیر ججز نے اعتراض کیا ہے، ممکن ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہو جائے، اس عدالت کی روایت کے مطابق دو سینئر ججز کے اعتراض کے بعد تکرار نا کریں، ان درخواستوں کا کوئی اور حل نکالتے ہیں۔

یہ کسی کا گھر نہیں ہے سپریم کورٹ ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اس وقت ہم 9ججز ہیں ہم فیصلہ کر دیتے ہیں اس کیس میں تو کل کو اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسی کا اعتزاز احسن سے مکالمہ ،یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کر دوں،یہ کسی کا گھر نہیں ہے سپریم کورٹ ہے، چیف جسٹس پاکستان نے جواب دیا کہ ہم نے بھی یہ بنچ اپنے آئین کے تحت اور حلف کے مطابق بنایا ہے ۔

مزیدخبریں