محسن نقوی اور افسر شاہی کی بس  

عامر رضا خان 

Mar 22, 2024 | 15:03:PM

Amir Raza Khan

وہ بہت سینئربیوروکریٹ تھے، آج بھی رئٹائرمنٹ کے بعد ایک اچھے عہدے پر موجود ہیں، میری پرانی یاد اللہ تھی جب کبھی ملاقات ہوتی ہے تو گفتگو کا موضوع پاکستان ، پاکستان کے عوام ،مسائل اور اس کا حل ہی ہوتا ہے، اس سے زیادہ نہ اپنی بات بڑھتی ہے اور نہ بے تکلفی ، اب کی ملاقات ہوئی تو میں نے نگران حکومت کے بعد پنجاب کی پہلی "زنان حکومت" یعنی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ  کی کارکردگی اور مستقبل میں پنجاب میں ہونے والے کاموں کا ذکر چل نکلا ،پہلے تو وہ ایک سرکاری ملازم کی طرح ہچکچائے اور کہا دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ ان کی گفتگو کم و بیش ایسی تھی کہ مریم نواز کو ناتجربہ کار تو نہیں کہا جاسکتا ، اُن کے ساتھ میاں نواز شریف ،شہباز شریف کا تجربہ بھی شامل ہے ۔

اچانک مجھے سکول کے زمانے کا واقعہ یاد آیا ،میں نے ایک مرتبہ بھاٹی چوک میں 70 سالہ ’سنیاسی باوا ‘کی دکان پر بیٹھے قدرے جوان 30، 35 سال کے آدمی سے کہا کہ آپ کی دکان پر لکھا ہے 70 سالہ سنیاسی باوا لیکن آپ کی عمر تو کم ہے؟ اُس حاضر جواب بندے نے کہا میرا تجربہ تو 5 سال کا ہے، 30 سال میرے دادا نے اور 35 سال والد صاحب نے یہ دکان چلائی ہے ،حساب لگاؤ 70 سال سنیاسی باوا کا تجربہ حاصل ہوگیا کہ نہیں ؟ میں نے یہ بات جب بیوروکریٹ کو سنائی تو وہ بھی ہنس پڑے ۔بولے حاضر جواب وہ نہیں آپ ہو ، میں نے کہا سر آپ نے کم و بیش 7 وزراء اعلیٰ کے ساتھ کام کیا ہے، جس میں منتخب بھی ہیں چنتخب بھی اور نگران بھی فرق کہاں ہے ؟
سینئر بیوروکریٹ نے کہا 7 نہیں 9 بنتے ہیں جن کے ساتھ کام کیا ہے لیکن جو کام کرنے کا انداز محسن نقوی کا دیکھا وہ کسی اور کے پاس نہیں، ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی وزیر اعلیٰ آیا تو اسے افسروں سے بھری ایک بس ملتی ہے جسے ایک سینئربیوروکریٹ چلا رہا ہوتا ،جسے پرنسپل سیکرٹری سمجھ لیں، اس بس کا ایک کلینڈر (کنڈکٹر)بھی ہوتا ہے، آپ اسے چیف سیکرٹری کہہ لیں، ہر وزیر اعلیٰ اس بس میں بیٹھتا ہے تو اس کے اردگرد ایسی سواریوں کو بٹھا دیا جاتا ہے جو اسے باتوں میں الجھائے رکھیں فائلوں میں گم رکھیں، کلینڈر سواریاں بدلتا رہتا ہے لیکن بس کو ڈرائیور جس طرف چاہے  لے جاتا ہے اور یوں عنان حکومتیں چلتی رہی ہیں، وزیر اعلیٰ بھی خوش اور سواریاں بھی کامران و شاد لیکن محسن نقوی نے وہ کام کیا جو 75 سال میں کوئی نہیں کرسکا تھا، محسن نقوی بطور نگران وزیر اعلیٰ آئے بس میں سوار ہوئے اور سیدھا ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ۔ ساری بیوروکریسی حیران و پریشان تھی ، انہوں نے کلینڈر والا کام بھی خود ہی کرلیا ،کسے بٹھانا تھا اور کسے بس سے اتارنا تھا اتنی سرعت سے کیا کہ ہم بھی حیران رہ گئے کہ نا سیاسی خانوادہ نا حکومتی امور چلانے کا کوئی تجربہ لیکن تن تنہا وہ کچھ کردکھایا کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا،ہمارے سارے اندازے سارے قیافے غلط کر دکھائے ، میں نے پوچھا کیا اندازہ تھا آپ کو ؟

ضرورپڑھیں:کھلاڑیوں کے انتخاب میں میری سفارش بھی نہ مانی جائے:محسن نقوی
وہ بولے ہم تو یہ سوچ رہے تھے کہ ایک صحافی کو نوازا گیا ہے، جسے صرف اپنا میڈیا ہاؤس چلانے کا تجربہ ہے، وہ پنجاب جیسے بڑے صوبے کی ایڈمنسٹریشن کیا دیکھے گا لیکن روز اول سے ہی محسن نقوی نے اپنا آپ منوانا شروع کردیا ،تاریخ کی سب سے چھوٹی کابینہ کے ساتھ جس تیزی سے کام کیا اس کی مثال دو ایک شہباز شریف اور سینکڑوں بزدار بھی مل جائیں تو نہیں دی جاسکتی ،ایسے ایسے پراجیکٹ جن کو شروع کرنے کے لیے مہینوں نہیں دو ایک سال پلاننگ کے لیے درکار ہوتے ہیں وہ نا صرف شروع ہوئے بلکہ چشم زدن میں مکمل بھی ہوگئے، دن رات کام ہوا نگران وزیر اعلیٰ نا خود ایک پل سویا نا اُس نے کسی کو سونے دیا ۔
بیوروکریسی حیران و پریشان سیٹ بیلٹ باندھے بس پر سوار تھی اُس بس پر کہ  جسے کبھی 10 کی سپیڈ سے زیادہ تیز چلایا ہی نہیں گیا تھا لیکن اب یہ بس 100 کی سپیڈ پر فراٹے بھر رہی تھی ، یہاں انہوں نے الٹا مجھ سے سوال کردیا کہ محسن نقوی کے پاس تو کوئی 70 سالہ سنیاسی باوا نہ تھا انہوں نے یہ سب کہاں سے سیکھا ؟ اب بولنے کی میری باری تھی سو میں نے کہا شہر شہر کے چینل چلاتے چلاتے محسن نقوی کو 15 سال ہوگئے ، لاہور ، فیصل آباد ، ملتان اور کراچی کے چینلز، وہ 24 میں سے 20 گھنٹے جاگ کر کام کرتے  ہیں ۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں اس بات کا ادراک ہوگیا کہ شہریوں کی دکھتی رگ کہاں ہوتی ہے جس کو سکون دیا جائے تو انہیں آرام مل سکتا ہے یہ وہ تجربہ تھا جو پاکستان میں اور کسی اورکے پاس نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:محسن پنجاب نامنظور ،مگر کیوں ؟

اس لیے انہوں نے بیوروکریسی کے فائل ورک سے زیادہ ’لیگ ورک‘ کو ترجیح دی، ایک ایک دن میں چار چار شہروں میں پراجیکٹس کا افتتاح کیا،ہیلتھ کو ٹیسٹ کیس بنایا اور ایک کے بعد ایک ہسپتال کو اپ گریڈ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا،شہریوں کی آمدو رفت کے لیے پورے پنجاب میں 26 ہزار کلومیٹرز سڑکوں کی تعمیرو مرمت کرائی سرکاری سکولز پر توجہ دی ،سیوریج کے نطام کو بہتر بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا،رمضان میں مفت آٹے کی سکیم چلائی چہار جانب محسن سپیڈ کے چرچے ہوئے، شور پاکستان میں ہوا تو بیرون ملک سے بھی پذیرائی ملی،چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک نے بھی دست تعاون بڑھایا،سموگ کا مسئلہ مصنوعی بارش کے ذریعے متحدہ عرب امارات سے حل کرایا وہ بھی مفت و مفت۔ نا تنخواہ نہ مراعات ، نہ گاڑی نہ ڈرائیور نہ چائے پانی کا خرچہ ۔ مفت کام کیا اور وزراء سے بھی مفت کام لیا، تمام شعبوں میں انقلاب آفریں کام کیا، پنجاب کا پیسہ پنجاب پر لگایا ،اللوں تللوں پر نہیں ۔جاتے جاتے خزانے میں اربوں روپے چھوڑے۔ اُنہوں نے اللہ پاک کی مدد اور اپنی حکمت عملی سے وہ کردکھایا جو 75 سال میں کوئی نہ کرسکا ، نا کرپائے گا ۔حکومت مردانہ ہو یا زنانہ ، اس بات پر ہم نے قہقہہ لگایا اور ملاقات اختتام پذیر ہوگئی ۔

نوٹ :ادارے کا بلاگر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

مزیدخبریں