(فرخ احمد) سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت 5 سال پورے کرتی نظر نہیں آتی، ان حکمرانوں کو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
24 نیوز کے ٹاک شو ’دی سلیم بخاری شو‘ مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی اتحاد پر سلیم بخاری صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا، لیکن دو سیاسی حریف جو ایک دوسرے کو بُرے بُرے القابات سے پکارتے تھے اب اتحادی بن بیٹھے ہیں، اس کو منافقت کہا جائے یا ’دی کنگ ڈسنٹ رانگ‘ (The king doesn’t wrong)، انہوں نے مولانا فضل الرحمان اور خان صاحب کو کنگ سے تشبیہ دیتے ہوے کہا کہ کل تک تو یہ لوگ ایک دوسرے کو ’مولانا ڈیزل‘ اور ’یہودی ایجنٹ‘ کہتے تھے اب کیسے اتحادی بن گئے؟ اس کو کیا منافقت کہیں یا کچھ اور؟
یہ بھی پڑھیں: ’’ہتک عزت بل اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی کیلئے بہت بڑا دھچکا ہوگا‘‘
مولانا اور پی ٹی آئی بیک گراونڈ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ مولانا کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جے یو آئی کو کے پی کی سیاست سے باہر نکال دیا ہے، اسی طرح خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کی حکومت کو چلتا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ جرنیلوں کو بھی کبھی میر صادق کبھی میر جعفر کے ناموں سے پکارتے تھے۔
انہوں نے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی لیڈر شپ کو مشورہ دیا کہ مولانا کو منانے کی ایک اور کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ان کا خیال ہے عمران خان اور مولانا صاحب کا اتحاد کوئی لمبا عرصہ چلنے والا نہیں، پی ٹی آئی کا حکومت بنانے کا خواب ابھی شرمندہ تعبیر ہوتا نطر نہیں آتا، اس لیے مولانا کو منانے کی ایک سنجیدہ کوشش کرنا ضروری ہے، مولانا صاحب کو لگتا ہے کہ شاید ان کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پی ٹی آئی درست پلیٹ فارم ہے، لیکن وہ غلط سوچتے ہیں کیوں کے خان صاحب انتہائی احسان فراموش انسان ہیں، کہاں ہیں جہانگیر ترین ، علیم خان، مولانا تو ان پر اتنا پیسہ بھی نچھاور نہیں کر سکتےجتنا ان لوگوں نےکیا ۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئر مین کے انتخاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس دفعہ یہ بھی پی ٹی آئی کو نہ ملے کیوں کے حکومت نے نئی پالیسی بنائی ہے جس کے تحت ووٹنگ کے ذریعے لگتا ہے کہ یہ سیٹ بھی پیپلز پارٹی کو دیدی جائے۔
ٹیریان کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالتوں کواپنی عالمی رینکنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلوں کو احتیاط سے کرنا ہوگا اور اس اثر کو زائل کرنا ہوگا کہ عدالتیں خان صاحب کو ریلیف دے رہی ہیں۔
مسنگ پرسن پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں کسی خاص فرد یا ادارے کی طرف اشارہ نہیں کر رہا لیکن ایسا تاثر ابھر رہا ہے کہ عدالتوں کو استعمال کر کے آئینی اداروں اور خاص کر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی توہین کی جارہی ہے، کوئی ذی شعور شخص کسی کے اغوا کو چاہے وہ کوئی بھی ہو اسکی حمایت نہیں کر سکتا، ہر ایک کو آزادی اظہار کا حق ہے، کیا دنیا بھر میں ایسا کہیں نہیں ہوتا؟ کیا جب کوئی ملکی بقا اور سلامتی کے خلاف کام کر رہا ہے اس کو کیوں نہیں اٹھانا چاہیے؟ بلکہ عدالتوں کے ذریعے ان کو سزا دینا ریاست کا حق ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کے رویے سے انصاف چھلکنا چاہیے، عدلیہ کو اداروں کے بارے میں ریمارکس دینے اور احکامات دیتے ہوئے مناسب رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ دونوں اداروں کے احترام میں کمی نہ واقع ہو نا کہ ایسا لگے کہ ادارے آپس میں دست و گریبان ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’’خان صاحب باہر آئے کے آئے‘‘
آئی ایم ایف کی تجویز پر ادویات پر سیلز ٹیکس لگائے جانے کا امکان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لوگ جھولیاں بھر بھر کر حکمرانوں کو بدعائیں دے رہے ہیں، حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا جب لو گ ہسپتال یا ڈاکٹر کے کلینک سے باہر نکلتے ہیں تو جب ان کو پتا چلتا ہے کہ اب میڈیسن اتنی اورمہنگی ہو گئی ہے تو ان کے منہ سے کیسی کیسی بدعائیں نکلتی ہیں، لائف سیونگ ادویات کی قیمتوں میں پی ٹی آئی دور کے قانون کے تحت 25 سے 65 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا تھا، لیکن ابھی بھی یہ سلسلہ رکا نہیں، غریب ادویات کے حصول کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے، وہ اپنے دیگر اخراجات پتہ نہیں کیساپورا کرتے ہیں اوپر سے مہنگی ادویات نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
انہوں نے حکمرانوں کو عوام کے غیض غضب سے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ریلیف دینے کے لیے آتی ہیں یا نچوڑنے کے لیے، حکومت کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے اگر ایسا نہیں کرتی تو پھر عوام کے پاس بھی ایک ہتھیار ہے جس کا وہ استعمال کرکے اپنا بدلہ لیے سکتے ہیں، جیسا کہ عوام نے 2024 کے عام انتخابات میں پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت کے ساتھ سلوک کیا۔
انہوں نے 2024 کے الیکشن میں شریف فیملی خاص طور پر نواز شریف ، مریم نواز ، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی کامیابی بھی مشکوک قرار دیدی، انہوں نے حکومت کے استحکام پر بھی سوا لیہ نشان لگا دیا اور کہا یہی حالات رہے تو 5 سال کس نے دیکھے ہیں، مجھے تو یہ حکومت 5 سال پورے کرتی نظر نہیں آتی، ان حکمرانوں کو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔