عدلیہ اور انتظامیہ کی محاذ آرائی میں اضافہ،حالات کس طرف جارہے ہیں؟

May 22, 2024 | 09:44:AM

Read more!

(24 نیوز)عدلیہ اور ایگزیکٹو کے مابین محاز آرائی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتی جارہی ہے ۔ عدلیہ اداروں پر اپنے کام میں مداخلت کا الزام لگارہی ہے جبکہ حکومت نا صرف اداروں کی مداخلت پر دفاعی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہے بلکہ جوابا عدلیہ کو ہدف تنقید بھی بنارہی ہے گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی جانب سے شاعر احمد فرہاد کی گمشدگی کیس میں دئے گیے ریمارکس اور ان پر وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ کی پریس کانفرنس نے تناوؑع میں مزید اضافہ کیا ۔

پروگرام ’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ  آج بھی اسلام آباد ہایئکورٹ میں چند انتہائی اہم کیسز کی سماعت ہوئی اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا بلوچ طلبہ کی بازیابی سے متعلق قائم کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے جب کہ گمشدہ بلوچ طلبہ کی جانب سے وکیل ایمان مزاری نے دلائل دیے دوران سماعت اٹارنی جنرل نے لاپتا افراد کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا 10 سال میں کتنے لوگ گرفتارہوئے اور کتنوں کو لاپتہ یا ہراساں کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا انٹیلی جنس ایجنسیاں کسی بھی شخص کو ہراساں نہیں کرسکتیں، معاملے میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے، اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا اچھا خفیہ ایجنسی کو اب تھانے میں بلائیں گے جسٹس محسن اختر نے کہا کہ عدالت جج، وکیل، صحافی، پارلیمنٹیرین اور ایجنسیوں کو قانون کےمطابق کام سے روکنےکی بات نہیں کرتی بلکہ صرف خلاف قانون کام کرنے سے روکنے کی بات کرتے ہیں، الزام ہے کہ بہت سے لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہوتے ہیں، وہ کھاتے پیتے بھی ہونگے، خرچ سرکاری خرانے پر آتا ہے؟ ایجنسیوں کے فنڈز کا کوئی سالانہ آڈٹ ہوتا ہے؟ ہم نے پولیس، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کو مؤثر بنانا ہے، یہی 3ادارےہیں جنہوں نے تفتیش کرناہوتی ہے، باقی ایجنسیاں ان کی معاونت کرسکتی ہیں، ایجنسیوں کےکام پر کسی کو اعتراض نہیں،اعتراض ماورائے قانون کام پر ہے ادھر شاعر احمد فرہاد کیس میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جمعہ تک شاعر احمد فریاد کی بازیابی سے متعلق عدالت کو یقین دہانی کرادی جس کے بعد کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی گئی ۔

ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین رکنی لارجر بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کو کاغذات نامزدگی میں چھپانے پر نااہلی درخواست پر سماعت کی جس سلسلے میں عمران خان کے وکیل نعیم پنجوتھہ نے دلائل دیے نعیم پنجوتھہ نے کہا کہ یہ معاملہ پہلے طے ہو چکا ہے، فیصلہ ویب سائٹ پر اپ لوڈ بھی ہو چکا، فیصلہ ویب سائٹ سے ہٹانے کے بعد پریس ریلیز کے ذریعے دوبارہ بینچ بنایا گیا جسٹس طارق جہانگیری نے نعیم پنجوتھہ نے سوال کیا کہ آپ کون ہیں؟ آپ اس کیس میں وکیل ہیں؟ اس پر نعیم پنجوتھہ نے بتایا کہ میں پراکسی کونسل ہوں، 6 ججز کے خط میں بھی اس کیس کا ذکر ہے عدالت نے کہا کہ دو ججز جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے اس متعلق رائے دی، اس پر حامد علی شاہ نے کہا کہ یہ دو ججز کی رائے تھی، چیف جسٹس کے اس فیصلے پر دستخط نہیں تھے جسٹس طارق جہانگیری نے بتایا کہ بینچ کے دو ممبرز نے کہا کہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں،خارج کی جائے، ایک ممبر کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے کیا فرق پڑے گا؟ چیف جسٹس عامر فاروق نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا حامد علی شاہ نے کہا کہ آپ ایک تاریخ دے دیں تاکہ معاونت کر سکوں، اس پر جسٹس طارق نے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ جو درخواست خارج ہو چکی ہے اس میں کیسے ریلیف دے دیں؟ جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ دو ججز اپنا فیصلہ دے چکے تھے، وہ فیصلہ آج سربمہر لفافے میں سب کے سامنے کھولا گیا۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں 

مزیدخبریں