(احتشام کیانی) بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریماکس دیئے کہ آپ نے یہ بتانا ہے کہ ڈونلڈ لُو کا بیان کیسے متعلقہ ہے، ہمیں کیا پتہ کہ ڈونلڈ لُو نے کیا کہا ہے بیان کیا ہے، آپ سیدھا سیدھا کہیں کہ ہم کیس کو 2، 3 ماہ تاخیر کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔
ایف آئی پراسیکیوٹر حامد علی شاہ کی عدالت پیش نہ ہونے کی وجہ
ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ حامد علی شاہ صاحب کی والدہ بیمار ہیں وہ مانسہرہ گئے ہیں، شاہ صاحب نے کہا تھا کہ میں آ جاؤں گا لیکن نہیں آ سکے، وکیل پی ٹی آئی سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا، یہ اس موقع پر بہت برا اقدام (move) ہے، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ شاہ صاحب سینئر وکیل ہیں، اللہ پاک ان کی والدہ کو صحت عطا فرمائے۔
ڈونلڈ لو کو عدالت پیش کرنے کی خواہش
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ ڈونلڈ لو کو عدالت میں پیش کرنا چاہتے ہیں؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی ہاں! ہم ڈونلڈ لُو کا بیان عدالت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کے دلائل پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریماکس دیئے کہ آپ نے یہ بتانا ہے کہ ڈونلڈ لُو کا بیان کیسے متعلقہ ہے، ہمیں کیا پتہ کہ ڈونلڈ لُو نے کیا کہا ہے بیان کیا ہے، آپ اپیل کے اختتام میں شہادت دینے جا رہے ہیں تو عدالت کو مطمئن کرنا ہے، آپ نے مطمئن کرنا ہے کہ یہ غیرمعمولی شہادت ہے اس کے بغیر فیصلہ نہیں ہو سکتا، عدالت کو یہ متفرق درخواست دائر کرنے کے وقت پر شدید تحفظات ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا ایف آئی اے پراسیکوٹر سے مکالمہ
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایف آئی اے پراسیکوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سیدھا سیدھا کہیں کہ ہم کیس کو 2، 3 ماہ تاخیر کا شکار کرنا چاہتے ہیں، سیدھا سیدھا کہیں اس کیس کو 2، 3 ماہ آگے لیکر جانا ہے، بیرون ملک سے شہادت آئے گی تصدیق ہو گی پھر گواہ آئے گا پھر شہادت آئے گی پھر جرح ہو گی، بادی النظر میں یہ پراسس کا غلط استعمال ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور اسٹیٹ کونسلز کی روسٹرم پر طلبی
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور اسٹیٹ کونسلز کو روسٹرم پر طلب کیا، عدالت نے استفسار کیا کہ اسٹیٹ کونسلز کو کب بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کا وکیل مقرر کیا گیا تھا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ اسٹیٹ کونسلر کو 26 جنوری 2024 کو ڈیفنس کونسل مقرر کیا گیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ پہلی بار عدالت میں کب پیش ہوئے؟ اسٹیٹ کونسلز عبدالرحمن نے جواب دیا کہ ہم 27 جنوری کو عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے اسٹیٹ کونسل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے عدالت سے وقت دینے کی استدعا کی؟ اسٹیٹ کونسل نے جواب دیا کہ نہیں، میں نے عدالت سے وقت نہیں مانگا۔
کیس سے متعلق ریکارڈ پر مکالمہ
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آپکو کیس سے متعلق کیا ریکارڈ فراہم کیا گیا تھا؟ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ہمیں تمام فائلز فراہم کی گئی تھیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام مطلب؟ اُس میں کیا کیا تھا؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ اسٹیٹ کونسلز کو متعلقہ ریکارڈ فراہم کرنے کا آرڈر کہاں ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ مجھے جیل اتھارٹیز کی طرف سے واٹس ایپ آیا تھا۔
کیس کی تیاری کیلئے وقت پر سوالات
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معذرت کے ساتھ ڈیفنس کونسلز نے وقت مانگنے کی بجائے جرح شروع کر دی، جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ 27 جنوری کو جرح ہوئی تو ہمیں کیسے پتہ چلے کہ انہیں ریکارڈ فراہم کیا گیا تھا؟ ہمیں کیسے پتہ چلے کہ ڈیفنس کونسلز تیاری کر کے گئے تھے؟ ڈیفنس کونسلز نے پہلی بار عدالت میں پیش ہوتے ہوئے نہیں سوچا کہ انہیں تیاری کیلئے کچھ وقت چاہیے، کسی بھی اچھے وکیل کو بھی تیاری کیلئے کم از کم 2 ہفتے کا وقت چاہیے ہو گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ چلیں ایک ہفتہ کر لیں، اسٹیٹ کونسلر نے جواب دیا کہ میری تو خواہش تھی کہ مجھے زیادہ سے زیادہ وقت مل جاتا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ڈیفنس کونسل کو ریکارڈ فراہم کرنے کا کوئی تحریری آرڈر نہیں ہے؟ اسٹیٹ کونسل نے جواب دیا کہ نہیں، ایسا کچھ لکھا نہیں ہے۔
عدالت نے اسٹیٹ کونسل سے استفسار کیا کہ کیا آپ ڈیفنس کونسل بننے سے پہلے بھی عدالت میں جاتے رہے؟ اسٹیٹ کونسل حضرت یونس نے جواب دیا کہ میں وقت لینا چاہتا تھا لیکن صورتحال ہی کچھ ایسی تھی، ہمیں بتایا گیا کہ شاید التواء نہ مل سکے تو تیاری کر لیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ نے ایک ہی رات میں تیاری کر لی؟ اسٹیٹ کونسل حضرت یونس نے جواب دیا کہ میں نے مزید وقت لینا محسوس کیا لیکن صبح سے انتظار کیا جا رہا تھا، میں نے درخواست نہیں دی کہ مزید وقت دیا جائے، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ 26 جنوری کو 2 سے 3 بجے کے درمیان میں نے ریکارڈ ان کو دیا تھا۔
بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی سے مشاورت
عدالت نے اسٹیٹ کونسلز سے استفسار کیا کہ آپ نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی سے کتنا وقت مشاورت کی؟ اسٹیٹ کونسل عبد الرحمن نے جواب دیا کہ میں بانی پی ٹی آئی سے ملا لیکن سوالات کے حوالے سے اتنی بات نہیں ہوئی، زیادہ وقت بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کر سکا لیکن تھوڑی تھوڑی دیر ملتا تھا۔
چیف جسٹس نے ڈیفنس کونسل سے استفسار کیا کہ آپ کی شاہ محمود قریشی سے کتنی دیر مشاورت ہوئی؟ ڈیفنس کونسل نے جواب دیا کہ میں نے کافی کوشش کی لیکن شاہ محمود قریشی نے مشاورت نہیں کی، جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ جب ملزمان آپ سے مشاورت نہیں کر رہے تھے تو آپ نے خود کو اتنا پابند کیوں سمجھا کہ آپ ضرور جرح کریں؟
اسٹیٹ کونسلز سے بیان حلفی طلب
عدالت نے دونوں اسٹیٹ کونسلز سے بیان حلفی طلب کر لیے، جسٹس حسن اورنگزیب نے حکم دیا کہ آپ بیان حلفی دیں کہ آپ نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی سے مشاورت کی کوشش کی، چیف جسٹس عامر فاروق نے حکم دیا کہ آپ اپنے تمام متعلقہ حقائق بیان حلفی کی صورت میں عدالت میں جمع کروا دیں، ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ کل کی سماعت میں پیش ہو کر دلائل دیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اگر شاہ صاحب نہیں آتے تو ہم اُن کے بغیر ہی سماعت مکمل کر لیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔