پاکستان میں بڑھتے چائلڈ لیبر کے پیچھے چھپے حقائق

رپورٹ :وسیم شہزاد | پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی تعداد 80 ہزار سے تجاوز کر گئی

Nov 22, 2022 | 11:47:AM
چائلڈ لیبر ,پاکستان, ILO , SPARC , جنوبی پنجاب ,ملتان
کیپشن: ملتان میں چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی تعداد 80 ہزار سے تجاوز کر گئی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

بچپن کا زمانہ خواہشات اُمیدیں اور خواب انسان کوبڑھاپے تک یاد رہتے ہیں تاہم کسی کا بچپن خوشگوار گزارتا ہے تو کسی کا انتہائی کرب مصائب و حسرتوں میں۔ زندگی اِسی ہی آزمائش و امتحان کا نام ہے۔ تعلیم حاصل کرنے اور کھیلنے کودنے کی عمر میں محنت و مشقت کرنے والے بچوں کو ہم چائلڈ لیبر کہتے ہیں۔ افسوس پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غربت بھوک مفلسی اور مجبوریوں کے سبب والدین اپنے بچوں کو بچپن میں ہی محنت مزدوری والے کاموں پر ڈال دیتے ہیں ، اس غرض سے کہ گھر کا چولہا ٹھنٹدا نہ ہوجائے۔ ہم اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں ادراک ہوتا ہے کہ مزدور بچے ورکشاپوں گھروں مارکیٹوں دکانوں ہوٹلوں بھٹوں نیز ہر جگہ کام کرتے عام دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے کبھی ان ننھے  مزدوروں کے چہروں پر موجود حسرتوں خواہشات اور خوابوں کو محسوس کرنے کی کوشش  ہی نہیں کی۔

 1996ء کے بعد سے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بھی سروے نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آج پاکستان میں چائلڈ لیبر کے درست اعداد و شمار معلوم نہیں۔ ILO (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے 2012 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد تقریبا 1کروڑ 25 لاکھ تھی۔ جبکہ SPARC نامی ایک این جی او کے کئے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 2 کروڑ 50 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جبکہ 1کروڑ 50لاکھ بچے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شامل ہیں۔ یقیناًیہ اعداد و شمار حقیقی صورت حال سے کم ہیں۔ اسکی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان میں بے روزگاری اور مہنگائی بہت بلند سطح پر ہے جس کی وجہ سے اگر 2کروڑ 50 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے تو اسکا سیدھا سا مطلب یہ کہ وہ تمام بچے جرائم اور چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ اتنی کم عمر میں اور اتنی مہنگائی کے عالم میں زیادہ مواقع چائلڈ لیبر کے ہی ہیں۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں سروے کرنا ممکن ہی نہیں جیسے بلوچستان اور پختونخواہ کے بہت سے دشوار گزار، پسماندہ اور خطرناک علاقے اور ان کے ساتھ ساتھ فاٹا کے قبائلی علاقے۔ ان علاقوں میں غربت بہت زیادہ ہے لہٰذا ان علاقوں میں چائلڈ لیبر کے لئے حالات سازگار ہیں اور یقیناان علاقوں میں چائلڈ لیبر بہت بڑی تعداد میں پائی جاتی ہو گی۔ اسی طرح ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گھریلو سطح پر ہونے والی چائلڈ لیبر چونکہ عام طور پر نہایت بے قاعدگی سے ہوتی ہے اور اس کے اعداد و شمار اکٹھا کرنا بہت مشکل بھی ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی درست تعداد ان سرویز سے بھی زیادہ ہے

آپ کے علاقے کے کیا حقائق اور اعداد وشمار ہیں؟

ہائیسنت پیٹر جنوبی پنجاب میں انہی بچوں کے حقوق پر گزشتہ 15 سال سے کام کرتے ہوئے مقامی این جی او چلا رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کے تمام شہروں کی نسبت ملتان میں چائلڈ لیبر کے شکار بچوں کی تعداد زیادہ ہے ، اور اسکا ایک خاص حصہ جنوبی پنجاب کے دیہاتوں پر مشتمل ہے ، شہر کی نسبت دہیاتوں میں ہونے والے چائلد لیبر کی شرح زیادہ ہے کیونکے دیہات میں صرف بھٹوں پر ہی نہیں بلکے زرعی زمینوں پر بھی چائلڈ لیبر دیکھی جاتی ہے جس میں چھوٹی بچیاں بھی شامل ہیں ،   ہائیسنت پیٹر کہتے ہیں مقامی چائلڈ لیبر پر کام کرنے والی تنظیم وائس آف وائس لیس آرگنائزیشن کے مطابق صرف ملتان اور گردونواح کے علاقوں میں چائلڈ لیبر کے شکار بچوں کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ ہے ، اس بات سے صاف یے بھی ظاہر ہوتا ہے کے یے بچے تعلیم سے بھی دور ہیں ، شہر ملتان میں ان بچوں کا اس تعداد میں موجود ہونا انتظامیہ کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے -

 

چائلد لیبر کے شکار بچے اور انکے والدین کا اظہار خیال

محمد عادل کا تعلق ملتان کے علاقے سمیجہ  آباد سے ہے ۔ جو 40 فٹی روڈ پر قائم شاہین موٹر ورکشاپ میں کام کرتا ہے  ، 12 سالہ کمسن محمد عادل چائلڈ لیبر کا پچھلے 3 سال سے شکار ہے ، اپنے وجود سے زیادہ بڑے ٹائر ٹائرز کو پنچر لگاتے محمد شکیل سے پوچھے گئے سوال آخر کونسی غلطی ہوئی جسکی سزا یے بچے بچپن میں کاٹ رہے ہیں کے جواب پر انکا کہنا تھا کہ اس غلطی کا اسے علم نہیں ۔ والد کی وفات کے بعد گھر کا سارا بوجھ ان کے کاندھے پر آگیا تھا، جسکے باعث وہ اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے چائلد لیبر کا شکار پر مجبورہو گئے -

صرف محمد عادل ہی نہیں بلکے نعیم (عمر بتائیے ) بھی اس چائلد لیبر کا شکار ہوتے ہوئے گزشتہ 5 سالوں سے بھٹے پر مزدوری کر رہے ہیں ، انکا کہنا ہے کے بھٹہ مالکان نے میرے خاندان کو اپنے بھٹے پر رہائش کی جگہ دے رکھی ہے جسکا قرض اتارنے کے لیے انکے پورے خاندان کو بچوں سمیت بھٹے پر مزدوری کرنا پڑتی ہے ، محمد عادل کا کہنا ہے کے کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے جیسے میں کے ہم غلامی کی زندگی گزار رہے ہوں ، بھٹی مالک بیشتر میرے والدین اور ہمیں کام جلدی نہ ختم کرنے پر ڈانٹتا ہے ، مگر 2 وقت کی روٹی کی مجبوری جہاں اس کی باتیں سننے پر مجبور کرتی ہے وہی وہ چنگل بھی ہے جو قرضے کی آڈ میں ہماری ہڈیوں کے رس سے ادا ہو رہا ہے ،

 

چائلڈ لیبر کا شکار محمد عادل کے والدین سے جب اس بارے میں تو انکا کہنا تھا کہ جنگ پیٹ کی ہے ، انکے پاس جہاں انہیں پالنے کے وسائل نہیں ہیں وہی بڑی وجہ بھٹی مالک کی جانب سے ملنے والا قرض ہے جو سود کے ساتھ گزرتی عمر کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے ، وہ کہتے ہیں انہیں لگتا ہے کی انکے اور انکے بچوں کی زندگی اسے قرض وکا اتارنے میں بسر ہو جائے گی اور انکی نسلیں بھی یہی غلامی کی چکی پیس رہی ہونگی ، کیونکہ وہ مالک کے آگے نہیں کھڑے ہو سکتے۔

جان محمد سوات کا رہائشی ہے جسے والدین نے شہر ملتان میں وڈیرے کے گھر ملازمت کے ساتھ ساتھ نشونما کے لیے چھوڈ رکھا ہے ، ہر مہینے کے آخر میں اس 13 سالہ کمسن کی اجرت مالک کی جانب سے اس کے پچھلے گاوں سوات میں پہنچا دی جاتی ہے ، جان محمد سے پوچھے جانے والے سوال کے تم پر یے گھر میں ملازمت کرتے وقت گزرتی کیا ہے کے جواب میں اس کمسن نے اس بات کا ادراک کیا کے انہین سکول جاتے ہوئے دوسرے بچوں کو دیکھ کر ، گھر میں کام کرتے وقت مالک کے بچون میں ٹیبز ،جدید کھلونے اور مہنگے لباس دیکھ کر دل توللچاتا ہے مگر انہیں انکے قریب جانے اور ان چیزوں کو چھونے کیا اجازت نہیں ہے ، وہ یہاں اپنی تمام خواہشات ، احساسات اور محسوسات کے ادراک دفن کر لیتا ہے ، کیونکہ وہ اپنی ڈیوٹی سے باخبر ہیں اور اسے  اپنی حدود کا اندازہ ہے جسے وہ کسی صورت عبور نہیں کر سکتا ، کیونکے انہین عبور کرنے کی تاب اسکا جسم نہیں لا سکتا ۔

 

سوات میں جان محمد کے والدین سے ہونے والے رابطے پر انکے والدین یے بتاتے ہوئے آبدیدہ بھی ہوئے کے وہ جانتے ہین کے یے انکے بچوں پر ظلم ہیں مگر وہ مجبور ہین ، کیونکہ بیشتر گھروں میں مالکون کے ہاتھوں سے وابستہ لوگون کے ہاتھوں ان پر ظلم عام ہے، مگر وہ مہنگائی کے اس دور میں اگر اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھیں تو ایک تو انکا خرچ پورا نہیں کر سکیں گے دوسرا انہیں ایسے بھیجنے سے جہاں بچوں کا خرچہ نہیں اٹھانا پڑتا وہی انکے بچوں سے آمدن بھی ہو رہی ہوتی ہے  ، جان محمد کے والدین اس سب کا زمہ داران حکومت کو ٹھہراتے ہین وہ کہتے ہیں کے مہنگائی میں اگر کمی کی جائے تو وہ اپنے بچوں کا بوجھ خود اٹھا سکیں گے ،

پاکستان میں بچوں سے ملازمت یعنی چائلڈ لیبر کی ممانعت سے متعلق کون کون سے قوانین موجود ہیں؟

ایڈوکیٹ ثمرہ بلوچ گزشتہ 5 سالوں سے چائلڈ لیبر کے حقوق کی جنگ کورٹ میں لڑ رہی ہیں ، انکا کہنا ہے کے  آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت مملکت، استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریخی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر کسی کو اسکے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔ وہ کہتی ہیں آئین کے آرٹیکل 11 کے تحت چودہ سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے یا کان یا دیگر پرخطر ملازمت میں نہیں رکھا جائے گا۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 25کے تحت ریاست تمام پانچ سال کی عمر سے لیکر سولہ سال کی عمر کے بچوں کیلیئے لازمی اور مفت تعلیم دینے کا انتظام کرے گی جسکا تعین قانون کر ے گا۔وہ کہتی ہیں آئین کے آرٹیکل 37کے تحت ریاست منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو انکی عمر یا جنس کیلیئے نا مناسب ہوں، مقرر کرنے اور ملازم عورتوں کیلیئے زچگی سے متعلق مراعات دینے کیلیئے احکام وضع کرے گی۔

ایڈوکیٹ ثمرہ بلوچ کہتی ہیں کہ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ ، 1991

ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز1995 

مائنز ایکٹ1923

چلڈرن (پلیجنگ آف لیبر) ایکٹ1933

فیکٹریز ایکٹ1934

روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز آرڈیننس1961

شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹس آرڈیننس1969

مرچنٹ شپنگ آرڈیننس2001

یے تمام قوانین خصوصی طور پر چائلڈ لیبر سے متعلق ہیں ، جن پر عمل کرانے کی ضرورت ہے ۔

ایڈوکیٹ ثمرہ بلوچ کا مزید کہنا ہے کے انٹرنشنیل لیبرآرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں مزدور بچوں کی تعداد میں واضح کمی آئی ہے جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں 1996 میں چائلڈ لیبر کا سروے انٹرنشینل لیبر آرگنائزیشن کی معاونت سے مکمل کیا گیا تھا جس کے مطابق اُس وقت ملک میں مزدور بچوں کی تعداد 33 لاکھ تھی ، 2012 کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں مزدور بچوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے یہ اعدادوشمار اربابِ اختیار اور ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔

پاکستان میں ملازمت کیلیئے کم از کم عمر کی حد کیا ہے ؟

ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے تحت بچے سے مراد وہ شخص ہے جسکی عمر چودہ سال سے کم ہو جبکہ نابالغ وہ ہے جسکی عمر چودہ سال سے زیادہ لیکن اٹھارہ سال سے کم ہو۔ جیسے ذکر کیا گیا کہ آئین میں بھی کم از کم عمر کی حد چودہ سال ہے لیکن اٹھارویں ترمیم نے دراصل کم از کم عمر کی حد چودہ سال سے بڑھا کر سولہ سال کر دی ہے کیونکہ اب آئین کی پچیسویں شق کے مطابق ریاست کییلیئے ضروری ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کیلیئے لازمی اور مفت تعلیم کا انتظام کرے جس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایک بچے سے سولہ سال کی عمر سے پہلے ہر وہ کام جو چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہو کام نہیں کروایا جا سکتا۔

اس قانون میں چند مستثنیات کا بھی ذکر ہے یعنی کچھ صورتوں میں قانون کا اطلاق نہ ہو گا۔

ایڈوکیٹ ثمرہ بلوچ کہتی ہیں کہ قانون کے مطابق بچوں کو کسی بھی ایسے پیشے، کاروباری ادارے اور پیداواری عمل میں کام کیلیئے نہیں رکھا جا سکتا جسکا تعین خطرناک کام کے طور پر کیا گیا ہو تاہم اگر کوئی بچہ، خاندانی یا نجی کاروبا ر/فیملی بزنس میں مصروف عمل ہے یا کسی ٹریننگ/تربیتی سکول (حکومت کا قائم کردہ یا منظور شدہ) میں ان پیشوں یا پیداواری عملوں سے متعلقہ ٹریننگ لے رہا ہو تو ان پر بچوں کی ملازمت سے متعلق ممانعت کا اطلاق نہ ہو گا۔

اگر کوئی آجر بچوں کو ملازمت کیلیئے رکھتا ہے تو اس پر کسطرح کا جرمانہ یا سزا عائد کی جاسکتی ہے؟

ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے سیکشن چودہ کے مطابق، جو شخص بھی بچوں کو خطرناک پیشوں یا پیداواری عملوں میں ملازم رکھتا ہے یا اسکی اجازت دیتا ہے تو اسے مبلغ بیس ہزار روپے تک جرمانہ ، یا قید کی سزا جسکی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اسکی کم از کم سزا چھے ماہ ہے جسکی مدت دوسال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔

افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کے حوالے سے مختلف قوانین موجود ہیٰں اس کے باوجود مسئلہ جوں کا توں ہے۔۔

اعدادو شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی کل آبادی میں سے 211ملین بچے ایسے ہیں جو چائلڈ لیبر کر رہے ہیں اور ان کی عمریں 5سال سے14سال کے درمیان ہیںیہ بچے زراعت کے علاوہ مختلف اشیاء کی مینو فیکچر سے وابستہ ہیں۔ایشیاء میں 60فیصد چائلڈ لیبر ہے۔ہر سال تقریبا6ملین بچے کام کرتے ہوئے زخمی ہو جاتے ہیں جن میں 2.5ملین بچے معذور اور تقریباًسالانہ 3,200کے قریب ہلاک ہو جاتے ہیں۔یہ اعدادو شمار کسی بھی ذی شعور اور انسانیت کی فلاح کی سوچ رکھنے والے شخص کے لئے پریشانی کا باعث ہیں جس کے تدارک کے لئے عالمی سطح پر اور ملکی سطح پر ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہ 

شہر ملتان کی صورتحال۔

 اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر ڈیپارٹمنٹ ملتان قبوس طارق کے مطابق شہر ملتان میں ایک ماہ کے دوران 15 سے زائد چائلڈ لیبر کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں ، جس پر لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے ، شہر ملتان میں اگر بھٹوں کی بات کی جائے تو بھٹے بند بوسن، راوں روڈ  اور ناگ شاہ کے علاقے میں زیادہ تعداد میں موجود ہیں ، جہاں کی شکایات زیادہ موصول ہوتی ہیں ،  انکا کہنا ہے کے 2016 میں اس قانون میں تیزی آنے کے بعد 2018 سے 2020 تک تقریبا بھٹے پر چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہو گیا تھا ، مگر یے چائلڈ لیبر اسی سطح سے دوبارہ بڑھی ہے جس سطح سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے ،سرخی میں یہ پوائنٹ دیا جاسکتا ہے

 ترجمان چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو ملتان نوید مختیار کے مطابق چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو ملتان نے رواں سال کے دوران 1036 بچوں کو حفاظتی تحویل میں لیا جبکہ 1040 بچوں کو لواحقین کے حوالے کیا گیا حفاظتی تحویل میں لئے گئے بچوں میں بھکاری،گھر سے بھاگے، گمشدہ،، بے آسرا، لاوارث نومولود، اور دیگر بچے شامل تھے بچوں کو دوران ریسکیو آپریشن شہر کے مختلف مقامات اور چائلڈ ہیلپ لائن 1121 کال آنے پر دیگر اضلاع سے بھی حفاظتی تحویل میں لیا گیا اس وقت چائلڈ پروٹیکشن بیورو سنٹر میں 70 کے قریب لاوارث بے آسرا بچے رہائش پذیر ہیں 

صوبائی وزیر تعلیم مراد راس سمجھتے ہیں کے صبح نو سکول ہی چائلڈ لیبر کا حل ہے ،ایک جانب ہم چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں دوسری جانب  صبح نو میں بچوں کو پڑھانے کے بعد دوباعہ چائلد لیبر کا شکار کر دیتے ہیں ، ایسا کیوں ؟صوبائی وزیر تعلیم مراد راس سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ  بڑھتے ہوئے چائلد لیبر کا حل تعلیم ہے ، زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے بعد بچوں میں یے شعور پیدا ہو جائے گا ، انہوں نے اپنے آپکو بدلنا ہے ، جب تک ان بچوں کو شعور نہین دیا جاتا اس کا حل ممن نہیں لیکن سوال یے پیدا ہوتا ہے ہمارے پاکستان میں ایم فل کیا پی ایچ ڈی سکالز موجود ہین جہاں انکو جاب نہیں مل پا رہی تو ان بچوں کو پڑھنے کے بعد انکا مستقبل کیا ہو گا ،،، ؟؟؟مراد راس کا اس سوال کے جواب پر کوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا ۔ وہ کہتے ہیں یے گہرا سوال ہے جسے ہم سب کو بیٹھ کو سوچنا ہو گا۔

 

صوبائی وزیر لیبر عنصر مجید برھتے ہوئے چائلد لیبر کو مہنگائی سے تشبیہ دیتے ہیں ،صوبائی وزیر لیبر عنصر مجید کا اس سوال کے جواب پر کہنا تھا کہ میرے سابقہ دور میں ہم نے چائلد لیبر کو بہت حد تک کنٹرول کر لیا تھا مگر جیسے ہی ایمپورڈڈ حکومت آئی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ، اسکے باعث چائلڈ لیبر پھر سے سر اٹھانا شروع ہو گئی ، وہ کہتے ہیں مہنگائی جب تک کم نہیں ہو گی ہم چائلڈ لیبر کو کنٹرول نہیں کر سکتے ۔