جی ہاں دھوکہ اور وہ بھی کھلا دھوکہ اُس ورکر کو جس نے ہر اچھے برے وقت میں پارٹی کا ساتھ نبھایا جس نے اقتدار کے دنوں میں اچھے دنوں کے خواب ہی دیکھے عملاً کوئی مفاد نا اٹھایا جس نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے کپتان کے نام پر جھگڑا کیا ، جو کبھی جمائما کو ماں کا درجہ دیتا تو کبھی ریحام خان کو یہ درجہ دیا خان نے پنکی پیرنی کو منکوحہ بنایا تو پی ٹی آئی کہ کھلاڑیوں نے اسے عظیم خاتون بشریٰ بی بی کے رتبے پر لا بٹھایا ، اس ورکر نے غلط کو غلط نا سمجھا بلکہ ہر غلط کو صحیع کہا کپتان نے انہیں اپنے کتے ٹائیگر سے تشبیع دی تو وہ خوش ہوا ، انہیں کہا کہ حکومت میں آتے ہین سارا غیرملکی قرضہ ادا کر دیا جائے گا وہ تالیاں پیٹتے رہے اور خان آئی ایم ایف میں پاکستان کو لے گیا ، یورپ میں عیاشی کی زندگی اور ٹیریان جیسے کیس کا سامنے والے نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا تو تمام ورکروں نے یقین کیا اور بابا فرید کے در پر بشریٰ بی بی کے بچھائے پھولوں کو سجدہ گاہ بنایا تو بیچارے اس کی توجیہات گھڑتے رہے ۔
خان نے کہا کہ آرمی چیف تو باپ جیسا ہوتا ہے تو باجوہ کے روپ میں انہیں باپ نطر آنے لگا ، بزدار کو وسیم اکرم پلس کہا تو انہیں پنجاب کا دور ابتلا خوشحالی کا سامان محسوس ہونے لگا ، انہیں کہا گیا کہ بجلی کے بل جلا دو تو انہوں نے جلا دئیے ، حکم ہوا کے9 مئی کو جی ایچ کیو کی اینٹ سے اینٹ بجا دو، شہیدوں کے مجسموں کو گرادو ، میانوالی ائر بیس کو آگ لگا دو ، پشاور ریڈیو کے ساتھ منسلک حساس بلڈنگ کو گرا دو ، اپنی ہی محافظ فوج کے خلاف نعرے لگا دو تو کسی نے یہ سوال بھی نا اٹھایا کہ آپ کی حکومت تو پہلی بار آئین کے تناظر میں گرائی گئی ہے احتجاج کیسا ؟ سعودی عرب سے ملنے والے تحائف اونے پونے دام بیچ کھائے تو کھلاڑی مریم کے پائن ایپل کا ڈبہ نکال لائے ، انہیں سوشل میڈیا پر ہر ناکامی کو کامیابی کہہ کر بیچا گیا تو یہ ورکر اچھے خریدار پائے گئے ،جعلی لوگوں نے صادق و امین کے القبات دئیے تو اس نے تعریف و ثنا کے پُل باندھ دئیے ، جس جج کو خان نے جج کہا اسے منصف مانا اور جس نے تحریک انصاف نہیں صرف انصاف پر مبنی فیصلہ لکھا اسے غدار بنوایا یہ سب کپتان کے کھلاڑی بلا معاوضہ کرتے رہے، یہ کوئی آسان کام نہیں تھا عمران خان کے دور اقتدار میں دیسی گھی کی میٹھی چوری کھانے والے تمام مفرور صرف ایکس پر جعلی ایکس ڈالتے ہیں اور ورکر جان ہتھیلی پر لیکر نکل آتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں : ترکیہ جانے کے خواہشمند پاکستانیوں کے لیے اچھی خبر
ایسے اندھی تقلید کرنے والے ورکر بہت کم سیاسی جماعتوں کو میسر ہوتے ہیں جو اپنے لیڈر کے گوبر کو حلوہ ثابت کرنے کے لیے کھا بھی جائیں اور پی ٹی آئی کے بانی کو ایسے ورکر تیار کرنے میں 22 سال لگے لیکن پھر ہوا کیا ؟ اب جب وقت آیا کہ لیڈر ورکروں کے ساتھ کھڑے ہوں تو تمام مرکزی لیڈر ٹیلی ویژن کے ٹاک شو ، میڈیا کانفرنس اور سوشل میڈیا فورمز تک محدود ہوگئے کوئی بھاگ گیا کوئی چُھپ گیا کسی نے اسلام آباد بلوا کر دھوکہ دیا تو کسی نے راوی کے پُل پر روانگی کا فوٹو سیشن کرایا ، یہ سب چھوٹے چھوٹے دھوکے تھے اصل دھوکہ تو اب ہوا ہے ۔
جی ہاں 26 آئینی ترمیم کا دھوکہ جو ورکرز کو دیا گیا ہے یہ اب تک کے تمام دھوکوں سے بڑا دھوکہ ہے جو پی ٹی آئی کی دھوکے باز لیڈر شپ نے اب تک دئیے ہیں ،26 وین آئینی ترمیم کی تیاری اور منطوری تک یہ ساری لیڈر شپ ایک جانب اپنے ورکرز کو یہ کہہ کر مطمئین کرتی رہی کہ وہ کوئی ایسی ترمیم نہیں آنے دیں گے جو جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس پاکستان بننے سے روکے یہ ایک طرف کی تصویر تھی جو ایکس ، فیس بُک اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارمز کے ساتھ میڈیا پر نظر آئی دوسری جانب یہ سب مہرے مولانا فضل الرخمان کے ساتھ ملکر خود وہ دیوار بناتے رہے جو جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روک سکتی تھی اب یہ بات کسی سے دھکی چھپی نہیں کہ 26 ائینی ترمیم جو دو تہائی سے زائد اکثریت سے ایوان بالا اور ایوان زیریں سے منظور ہوگئیں اور اس میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین نے کسی بھی ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا صاف ظاہر ہے کہ بائیکاٹ کا مطلب ہی یہی تھا کہ حکومتی ایوان خاموشی سے بل منظور کرالے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ، اور وہی ہوا جب بل پیش ہوا تو مخالفت میں نا ہونے کے برابر ووٹ تھے نا کوئی ڈبیٹ نا جواب الجواب نا ترمیم کے اچھے برے پہلوں کو اجاگر کیا گیا ، حکومتی ایوانوں میں اس بائیکاٹ کی باقائدہ خوشیاں منائیں گئیں ۔ اور یہ تو خان نے بتایا تھا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے پھر یہ جماعت کیسے نیوٹرل ہوئی ؟
یہ بھی پڑھیں : خبردار! جلنے والا کچرا دل کی صحت کے لیے خطرناک
اب جب یہ ترمیم پاس ہوچکی عدلیہ کے انتخاب کے لیے کمیٹی بن چکی تو اس پکی پکائی دیگ میں سے اپنا حصہ لینے کے لیے پی ٹی آئی پہنچ گئی، پارلیمٹرین کی 12 رکنی کمیٹی کے نام پڑھیں جو اسمبلی سیکرٹریٹ نے جاری کیے ہیں۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی درج ذیل ممبران قومی اسمبلی و سینیٹ پر مشتمل ہو گی ممبران قومی اسمبلی خواجہ محمد آصف،احسن اقبال، محترمہ شائستہ پرویز ملک ممبران قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر، محترمہ رانا انصار، گوہر علی خان، صاحبزادہ محمد حامد رضا کمیٹی کا حصہ ہونگے ممبران سینٹ سینیٹر فاروق حامد نائیک، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، سینیٹر سید علی ظفر، سینیٹر کامران مرتضیٰ بھی کمیٹی میں شامل ہیں یعنی کہ جس درخت کے اگنے پر اعتراض تھا اس کا پھل کھانے کے لیے حامد رضا ، گوہر اور علی ظفر پہنچ گئے اور ورکر بیچارہ آج بھی سوشل میڈیا پر اپنے لیڈران کو ہیرو ثابت کرنے میں لگا ہے اب یہ کمیٹی کے ممبر ہیں ایک بار پھر بائیکاٹ کرکے کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کریں گے پی ٹی آئی کے ورکر پھر دھوکہ کھانے کے لیے تیار رہیں۔