مخصوص نشتوں کے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے سے توہین عدالت نہیں لگے گی: چیف جسٹس

Oct 22, 2024 | 17:49:PM

(امانت گشکوری) چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلہ نہیں ہوا اس لیے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے سے توہین عدالت نہیں لگے گی۔

پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے معاملے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس جمال مندوخیل نے ریفرنس پر اقلیتی فیصلہ جاری کر دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے 14 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی تحریر کیا۔

چیف جسٹس کے جاری کردہ تحریری حکم نامے کے مطابق اکثریتی فیصلے میں آئینی خلاف ورزیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی میرا فرض ہے، امید ہے اکثریتی ججز اپنی غلطیوں پر غور کر کے درست کریں گے، پاکستان کا آئین تحریری ہے اور آسان زبان میں ہے، امید ہے اکثریتی ججز آئین پاکستان کو دیکھتے ہوئے اپنے فیصلے کی تصحیح کریں گے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ 8 ججز کا 12 جولائی کا مختصر اور 23 ستمبر کا تفصیلی فیصلہ غلطیوں سے بھرپور ہے، 8 اکثریتی ججز کی 14 ستمبر اور 18 اکتوبر کی وضاحتوں میں بھی آئینی غلطیاں ہیں، 8 ججز نے اپنی الگ ورچوئل عدالت قائم کی، امید ہے بردار ججز یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا نظام آئین کے تحت چلے۔

چیف جسٹس کے مطابق بدقسمتی سے اکثریتی مختصر فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست پر سماعت نہیں ہوسکی، کمیٹی اجلاس میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی مقرر نہ کرنے کا موقف اپنایا، مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کا کہا گیا، اکثریتی ججز نے وضاحت کی درخواستوں کی گنجائش باقی رکھی۔

چیف جسٹس نے مزید لکھا کہ کیس کا چونکہ حتمی فیصلہ ہی نہیں ہوا اس پر عملدرآمد ضروری نہیں، 8 اکثریتی ججز کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، 8 اکثریتی ججز نے مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلیں نمٹائی نہیں، جب اپیلیں نمٹائی نہیں گئیں تو کیس زیر التوا سمجھا جائے گا، 8 ججز نے اپیلیں زیر التواء رکھ کر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کو نئی درخواستیں دائر کرنے کا کہا۔

یہ بھی پڑھیں:  وزراء کی مراعات میں اضافے کا فیصلہ 

چیف جسٹس نے مزیدلکھا کہ حتمی فیصلہ نہیں ہوا اس لیے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے سے توہین عدالت نہیں لگے گی، چیف جسٹس کی مدت 3 سال کرنے سمیت آئینی ترامیم کی بات چل رہی تھی، رائے دی کہ مجوزہ آئینی ترامیم سے متاثر یا فائدہ لینے والے ججز بنچ کا حصہ نہ بنیں، ججز کمیٹی اجلاس میں بنچ کی تشکیل سے متعلق میری رائے سے اتفاق نہیں کیا گیا، ترامیم سے متاثر ہونے والے ججز کو الگ نہ کرنے پر فل کورٹ تشکیل دینے کی رائے دی۔

چیف جسٹس کے اقلیتی فیصلے کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس میں دیگر ججز سے اختلاف کیا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کوئی بھی قانون ختم کر سکتی اور بنا سکتی ہے، سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے رائے بدل دی، جنرل (ر ) قمر جاوید باجوہ کی 6 ماہ توسیع کا فیصلہ دے دیا گیا، قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا، عمران خان،فروغ نسیم اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور قمر جاوید باجوہ کی توسیع چاہتے تھے، آرمی چیف کی توسیع کے کیس میں درخواست سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جمال مندوخیل کے اقلیتی فیصلے کے مطابق کئی امیدواروں نے اپنی نامزدگی کے کاغذات میں قسم اٹھائی کہ وہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں، امیدواروں کے پاس پی ٹی آئی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ بھی تھا، کچھ امیدواروں نے پی ٹی آئی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا، لیکن انہوں نے قسم اٹھائی کہ وہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کا رکن سمجھا جانا چاہیے۔

اقلیتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے اس عدالت کے 13 جنوری 2024 کے فیصلے کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو انتخابات کے قواعد کے فارم 33 میں آزاد امیدوار کے طور پر غلط ظاہر کیا گیا، الیکشن کمیشن کو کسی سیاسی جماعت کے نامزد کردہ امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دینے کا کوئی اختیار نہیں، آر اوز اور الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو غیر قانونی طور پر آزاد ڈکلئیر کیا، آر اوز اور الیکشن کمیشن کی غلطی کی سزا 39 ارکان کو نہیں دی جا سکتی، باقی 41 آزاد ارکان کی حد تک ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے تھے۔

اقلیتی فیصلے میں اتفاق نہیں کیا گیا کہ ممبران اسمبلی 15 روز میں تحریک انصاف میں شامل ہوں، شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے، جو بھی الیکشن لڑ رہا ہو اسے الیکش سے قبل اپنی متعلقہ پارٹی کا ٹکٹ آر او کو  جمع کرانا ہوتا ہے، جو پارٹی کا ٹکٹ یا ڈکلریشن جمع نہیں کراتا وہ آزاد تصور ہوتا ہے، الیکشن میں آر او کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے، آر او الیکشن سے قبل تمام امیدوارں کے نام پارٹی کے انتخابی نشان کے ساتھ آویزاں کرتا ہے، انتخابی رزلٹ بھی آر او کی جانب سے جاری ہونے کے بعد الیکشن کمشن اسے حتمی کرتا ہے، آئین میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے۔

مزیدخبریں