جنگ ہو یا کھیل دونوں میں سپہ سالار اور کپتان کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، اچھے ٹیم مینیجرزکی بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ رسک لیتے ہیں اور درپیش صورتحال کی مناسبت سے غیر روایتی فیصلے کرکے زیادہ پرجوش کپتان کو موقع دے کر کامیابی سمیٹ لیتے ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے پہلے مرحلے میں حکومتی لشکر کا علم وزیراعظم شہباز شریف کے ہاتھوں میں رہا، پہلی کاوش کامیاب نہ ہو سکی تو دوسرے مرحلے میں بلاول بھٹو زرداری کو علم بردار بنا دیا گیا، اس بار سینٹر ہاف پوزیشن میاں نواز شریف کی بجائے صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کو دیدی گئی اور فل بیک اسحٰق ڈار کی جگہ سید خورشید شاہ کو بنا دیا گیا ، کپتان بلاول بھٹو زرداری خود سنٹر فارورڈ پوزیشن پر کھیلے اور خوب کھیلے، رائٹ ان وزیراعظم شہباز شریف اور لیفٹ ان وزیر داخلہ محسن نقوی تھے، میچ کے آخری لمحات میں ٹیم میں 2 بڑی تبدیلیاں کی گئیں اور مولانا فضل الرحمٰن اور میاں محمد نواز شریف کو رائٹ آؤٹ اور لیف آؤٹ کی پوزیشنز پر اپنے کھیل کے جوہر دکھانے پر آمادہ کر لیا گیا، اور جب میچ ختم ہونے میں ابھی دو تین منٹ باقی تھے، رائٹ آؤٹ کے پاس پر سنٹر فارورڈ نے فیصلہ کن گول کرکے اپنی ٹیم کو ناقابل شکست برتری دلا دی، یوں حکومتی ٹیم نے 26ویں آئینی ترمیم کا یہ میچ انتہائی سنسنی خیز مقابلے کے بعد صفر ایک سے جیت لیا۔
کہتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، بلاول بھٹو زرداری نے حالیہ چند ہفتوں کے دوران اس معرکے میں جس چابکدستی کا مظاہرہ کیا ہے اس میں ایک طرف نانا کی پلٹنے جھپٹنے والی جھلک واضح نظر آئی تو دوسری طرف والد والی توڑ جوڑ والی سیاست کے اثرات بھی دکھائی دیئے، ایسے ہی مواقع پر کہا جاتا ہے کہ مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے؟ اتفاق رائے سے آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے کی تیاری بھی بہت اہم مرحلہ تھا، یہ کسی بلند و بالا عمارت کی مضبوط بنیادیں تعمیر استوار کرنے والا کلیدی اہمیت کا کام تھا اور ٹیم مینیجرز کی مردم شناسی کو داد دینا پڑے گی کہ اس اہم ترین کام کیلئے سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو ذمےداری سونپی گئی اور پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کمال اتفاقِ رائے سے اپنے مشن کو مکمل کیا، مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کو جس کمال ہنرمندی سے انگیج رکھا اس حوالے سے کچھ تفصیل بیان کرنے کی کوشش سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے کہ ان کے کمال فن کو تو پوری قوم لائیو کوریج کے انداز میں دیکھتی رہی۔
26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا سب سے پہلا نتیجہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا نئے انداز میں انتخاب ہے، اس ترمیم سے کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اور پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی انتشاری سیاست کو کیسا زناٹے دار تھپڑ پڑا اس دلچسپ تفصیل میں جانے سے پہلے مختصر سا ذکر ہو جائے نئے چیف جسٹس آف پاکستان کے عظیم منصب کے 3 متوقع امیدواروں کا ، پروپیگنڈا اور بحث کی جا رہی کہ آئینی ترمیم کے ذریعے کسی کا راستہ روکا گیا ہے یا کسی کا راستہ صاف کیا گیا ہے، لیکن جب نئے چیف جسٹس کے تینوں امیدواروں کی سی وی چیک کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جسٹس منصور، جسٹس منیب اور جسٹس آفریدی میں تعلیم، اہلیت، کیریئر سمیت کسی معاملے میں رتی برابر فرق نہیں ، مطلب یہ ہے کہ تینوں میں سے جو بھی چیف جسٹس بنے، کوئی فرق نہیں ہو گا لیکن اس بات کے بھی دو مطلب بنتے جس پر فی الحال رائے کو موخر کر دیتے ہیں۔
پاکستان کے اگلے چیف جسٹس (CJP) کی دوڑ میں شامل سپریم کورٹ کے تینوں ججوں میں بہت سی حیران کن مماثلتیں ہیں، تینوں ممتاز ایچی سونیئنز ہیں، ان میں سے دو منیب اور یحییٰ اپنے اپنے بیچ میں ہیڈ بوائز تھے، جب کہ تیسرے، یعنی منصور کالج پریفیکٹ تھے، منیب اور منصور دونوں ٹینس کھیلتے تھے، منصور ایچی سن کے ٹینس کپتان اور کلر ہولڈر بھی رہے اور قومی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں بھی شریک ہوتے رہے، منصور اور یحییٰ جج بننے سے پہلے کئی سالوں تک ایک ہی لا فرم (آفریدی، شاہ، من اللہ) میں شراکت دار تھے، ان میں سے دو (منصور اور یحییٰ) نے کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جبکہ منیب نے پرنسٹن میں تعلیم حاصل کی، 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے کی صورتحال یہ تھی کہ منصور، منیب اور یحییٰ تینوں نے اسی ترتیب سے باری باری چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان اور اس کے سہولت کار ججوں کے ناپاک گٹھ جوڑ کو چاروں شانے چت کر دیا ہے، پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے، اپنی دانست میں پی ٹی آئی والے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ تاخیری حربوں والا کھیل کھیلتے رہے لیکن حکومت اور مولانا کی کیلکولیشن زیادہ بہتر تھی اس لیئے دونوں نے پی ٹی آئی قیادت کو اس وقت تک انگیج رکھا جب تک آخری دھوبی پٹکا مارنے کا وقت نہیں آ گیا اور پھر پی ٹی آئی والوں کو ہوش اس وقت آیا کہ جب وہ آئینی ترمیم کے دنگل کے اکھاڑے میں چاروں شانے چت پڑے تھے۔
26 ویں آئینی ترمیم میں وہ سب کچھ ہے جس کی موجودہ درپیش چیلنجز میں حکومت اور ملک و قوم کو ضرورت تھی، بانی پی ٹی آئی اور ان کے سہولت کار ججز کے انتشاری ایجنڈے نے ملک کو ایک دلدل میں دھنسا رکھا تھا، یہ افسوس ناک صورتحال انتظامی، سیاسی، معاشی اور عدالتی ہر حوالے سے ناقابلِ برداشت تھی، نئی آئینی ترمیم کے تحت اب وفاقی پارلیمانی نظام حکومت کے عکاس حقیقی آئینی بنچ بنیں گے اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر مخصوص طبقے یا خاص کلٹ کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی، یہ وہ کلٹ ہے جس نے پچھلے کئی عشروں سے نہ صرف اعلیٰ عدلیہ بلکہ پورے جمہوری سسٹم کو یرغمال بنا رکھا تھا،
نئے چیف جسٹس آف سپریم کا انتخاب اب پارلیمنٹ اور حکومت مشترکہ طور پر کریں گے، اس حوالے سے فیصلہ کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل مکمل ہو گئی ہے، اس نئے طریق کار کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر چند برس بعد ملک میں عدلیہ اور انتظامیہ اور عدلیہ و مقننہ میں جو محاذ آرائی شروع ہو جاتی رہی ہے، اس سے ہمیشہ کیلئے نجات مل جائے گی، اسی طرح حکومت اور پارلیمنٹ مل کر ہائی کورٹ کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لے سکیں گے یوں ریاست و حکومت اور عوام کے سامنے جوابدہ عدلیہ کا تصور فروغ پائے گا، اس اہم آئینی ترمیم کی وجہ سے اوپر سے نیچے تک انصاف کی فراہمی کے عمل میں بھی بہتری آئے گی اور بدانتظامی و کرپشن کا جو دور دورہ ہے اس کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
ریاست و حکومت کے مختلف اداروں اور محکموں کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی ایک وجہ ہائیکورٹس کا سوموٹو کا اختیار بھی تھا، اس قاتل ہتھیار کا خاتمہ بھی بہت اچھا اور قابل قدر فیصلہ ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے یہ بدگمانی بھی پیدا کی گئی ہے کہ اس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات چھینے گئے ہیں یا عدالت عظمیٰ کو بے اختیار اور بے توقیر کیا جا رہا ہے، حالانکہ اس ترمیم کے ذریعے مختلف حوالوں سے سپریم کورٹ کو مزید طاقتور بھی کیا گیا ہے اور ہائیکورٹس پر چیک اینڈ بیلنس کے عمل میں پارلیمنٹ و حکومت کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کو بھی اہم رول دیا گیا ہے، اس حوالے سے اب سپریم کورٹ کو ھائی کورٹس سے مختلف کیسز دوسری ہائیکورٹس میں یا سپریم کورٹ میں منتقل کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
سب سے بڑھ کر اہم پوائنٹ یہ ہے کہ تاریخی 26 ویں آئینی ترمیم کے باعث پاکستان کی سب سے بڑی فتنہ پرور جماعت پی ٹی آئی اور اس کے انتشاری ایجنڈے کو پہلی بار ایک بڑا ڈینٹ پڑا ہے اور وہ نہ صرف بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے بلکہ موجودہ سیاسی و معاشی استحکام کیخلاف اس نے 26 اکتوبر سے نئی سازش کرنے کا جو منصوبہ بنا رکھا تھا وہ بھی وڑ گیا ہے، پی ٹی آئی نے اپنے بچاؤ کیلئے خود کو کئی ماہ تک مولانا فضل الرحمٰن کی بغل بچہ تنظیم بنائے رکھا، 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل قومی اتفاق رائے کیلئے جو کاوشیں کی گئیں اس دوران پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی ضد و ہٹ دھرمی مولانا پر بھی عیاں ہو گئی جس سے تحریک انصاف اس چھتری سے بھی محروم ہو گئی یوں بغل بچہ والے ریلیف کو بھی اب مزید انجوائے نہیں کر پائے گی۔
ججوں کے ایک مخصوص ٹولے کی سہولت کاری نے پی ٹی آئی کو حالیہ دس بارہ برسوں کے دوران ایک تانگہ پارٹی کے لیول سے اوپر اٹھا کر ایک سیاسی عفریت بنا دیا تھا، ججوں اور پی ٹی آئی کا یہ ناپاک گٹھ جوڑ ٹوٹنے کے بعد اب ان شاءاللہ ان تمام کیسز میں سزاؤں کا وہ ناگزیر عمل بھی شروع ہوگا جسے پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کے عدالتی سہولت کاروں نے مختلف حیلوں بہانوں سے روک رکھا تھا۔ بقول بلاول بھٹو زرداری کالے سانپ افتخار چوہدری کی عدلیہ کا سدباب ہوا ہے لیکن سوال ابھی بھی موجود ہے کہ کیسے؟ فی الوقت تو سب وہیں کہ وہیں موجود ہیں، کیا ابھی عدلیہ میں مزید تبدیلیاں ہوں گی؟
ابتدائے عشق ہے، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا