تعلیمی ادارے اور جدید معاشرتی تقاضے
تحریر: ڈاکٹر زبیدہ جبیں
Stay tuned with 24 News HD Android App
ہم اکتوبر کے چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں، لاہور کے ماحول میں ایک بے اطمینانی اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ لاہور کے معروف تعلیمی اداروں میں طالبات کے ساتھ ہونے والے واقعات نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا یہ وہی تعلیم ہے جسے حاصل کرنے کے لیے والدین اپنی بیٹیوں کو بھیجتے ہیں؟ اور یہ کون سے طالب علم تھے جنہوں نے ایک چنگاری سے پورے خرمن کو دہکا دیا؟ یہ اخلاقی اور سماجی بحران ہے جس نے سچ اور جھوٹ کو ملغوبہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ کیا یہ سلسلہ بند نہیں ہو سکتا؟
اقبال نے کہا تھا:
"تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم، تو جدھر چاہے اسے پھیرا دے"
آج یہی صورت حال ہو چکی ہے۔
پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں لاتعداد تعلیمی اداروں کا ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔ روز مرہ تعلیم، ویک اینڈ کلاسز، نائٹ کلاسز، ورچوئل کلاسز، اور سمسٹر سسٹم نے طلبہ و طالبات کو حصولِ تعلیم کے وسیع مواقع فراہم کیے ہیں۔ تاہم انٹرمیڈیٹ کی تعلیم غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکی ہے، کیونکہ آئندہ زندگی میں جو بھی میدان اختیار کرنا ہے اس کا انحصار انٹرمیڈیٹ کے ان دو سالوں کی تیاری اور پھر ملنے والے گریڈز پر ہے۔
تعلیمی اداروں میں نمبروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ والدین اور طلبہ نے بھی ذہناً اور عملاً اسے قبول کر لیا ہے۔ سکول اور کالج اوقات کے بعد شام کے تعلیمی اداروں اور اکیڈمیوں نے اس دوڑ کو دگنا کر دیا ہے۔ اخلاقی عادات، رویے اور معاشرتی اصول سکھانے کی بات قصہ پارینہ سمجھی جانے لگی ہے۔ نمبروں سے بات شروع ہوتی ہے اور نمبروں پر ختم ہوتی ہے۔
بچے اور نوجوان آج کل جس حسّاسیت اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، اس کی ذمہ داری والدین، تعلیمی ادارے اور معاشرہ تینوں پر ہے۔ بچوں کی نشوونما کے دوران بڑوں کا احترام، سچائی، امانت داری، اور رشتہ داروں کے حقوق کی پاسداری سکھانے کی ضرورت ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ جھوٹ، مبالغہ آرائی، اور غصے جیسے منفی جذبات کو بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔
1980 کے بعد سے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ نمبروں کا حصول ترجیح بن چکا ہے، جسے اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ مادہ پرست اور منافع پرست رویوں نے طلبہ کو صرف اور صرف نمبروں کا حریص بنا دیا ہے۔ والدین بھی بچوں کو صرف پڑھنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ طلبہ و طالبات کا رشتہ داروں سے ملنا جلنا بھی محدود کر دیا جاتا ہے۔ امتحان کا موسم ہو تو ہر دوسرا کام بے کار اور بے فائدہ سمجھا جاتا ہے۔ اکثر مائیں بیٹیوں کو گھرداری سے دور رکھ کر صرف پڑھنے کی نصیحت کرتی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہم پاکستانی خود ان مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ ہماری نوجوان نسل، جو معاشرتی اور تعلیمی دباؤ کا شکار ہے، اپنے بڑوں سے ایسے ردعمل سیکھ رہی ہے جس میں صرف شور شرابا اور فوری فیصلے شامل ہیں۔ چینلز چیختے، دھاڑتے اور سنسنی خیز خبریں دیتے ہیں، اور طالب علم اسی ماحول کو اپنا رہے ہیں۔
آج ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کے ضابطے طے کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے حکومت، والدین، اساتذہ اور طلبہ کو مل کر کوشش کرنی چاہیے۔ تعلیم کا بڑا مقصد نوجوانوں کی نفسیاتی اور مزاجی ترتیب و تہذیب ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ آج کی نسل کی ضرورت کیا ہے؟ ریاست کو کس طرح کے بااخلاق نوجوانوں کی ضرورت ہے؟
نوجوانوں میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے اور فوری ردعمل کی بجائے سوچنے، سمجھنے اور سننے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ تعلیم اور خاندان دونوں کو اس سلسلے میں فعال کردار ادا کرنا ہے۔ مثبت سماجی شعور کے لیے انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کا شعور دیا جائے۔ آج کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف تعلیم نہیں بلکہ تربیت بھی دیں، تاکہ وہ ایک مضبوط معاشرتی کردار ادا کر سکیں۔