پاکستان کو ’’کنوارہ‘‘رہنے سے بچائیے!!
تحریر:اظہر تھراج
Stay tuned with 24 News HD Android App
اخبارات میں ضرورت رشتہ کے اشتہارات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کےلیے یہ کتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ لڑکے ہیں تو ان کی عمریں ڈھلتی جارہی ہیں اور لڑکیاں ہیں تو بیٹھے بیٹھے بالوں میں چاندی آگئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو معاشی مسئلہ ہے، دوسری وجہ معاشرتی ناہمواری یا ’’بہتر سے بہترین‘‘ کی تلاش ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں ادھیڑ پن میں چلے جاتے ہیں لیکن ان کی ’’بہترین‘‘ کی تلاش ختم نہیں ہوتی۔ وہ اسی تلاش میں ابدی منزل پا جاتے ہیں۔
میرا ایک دوست جس کی عمر تقریباً 45 سال ہے، اس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟ جناب فرماتے ہیں کہ ابھی تک مجھے میرے لیول کی لڑکی ہی نہیں ملی۔ میں نے کہا عمر تو گزر گئی۔ جناب فرماتے ہیں ’’ابھی تو میں جوان ہوں، میری عمر ہی کیا ہے، 30 سال۔‘‘ اس کے بالوں کی سفیدی کو فیشن سمجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کا کیا لیول ہے؟ فرمانے لگے کہ پڑھی لکھی ہو، گوری چٹی ہو، پاک باز، باحیا ہو، میرے حکم کی پابند رہنے والی ہو۔ میں نے جب کہا کہ آپ تو ایسے ہیں؟ آپ کا تو فلاں فلاں کے ساتھ ’’چکر‘‘ چل رہا ہے۔ تو کہنے لگے کہ میں مرد ہوں، میری مرضی۔
ادھر یہی مزاج صنف نازک کا بھی ہے۔
ضرور پڑھیں :پڑھے لکھے نوجوان خواجہ سرا کیوں بن رہے ہیں؟
دوسرا مسئلہ ذات برادری کا ہے۔ کوئی معیاری رشتہ مل بھی جائے تو ذات برادری آڑے آجاتی ہے۔ ’’کیا کہا برادری سے باہر کا رشتہ آرہا ہے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آئندہ ایسی بات سوچنا بھی نہیں، زندہ دفن کردیں گے۔ ٹھیک ہے اسلام میں تاکید ہوگی کہ لڑکی کی مرضی معلوم کرو۔ لیکن اسے دینِ دنیا کی الف ب کا کیا پتہ۔ یہ کیسے اپنے فیصلے خود کرسکتی ہے؟ اسلام نے تو اور بھی بہت کچھ تاکید کی ہے تو کیا اس پر عمل ہوتا ہے؟ بس ہم نے جہاں شادی طے کردی وہیں پر ہوگی، اگر بات نہ مانی تو مار کے اسی صحن میں گاڑ ڈالیں گے۔ بیٹی آخر ہم تیرا برا کیوں چاہنے لگے بھلا۔‘‘ یہ ’’ہٹلر‘‘جیسے ممی ڈیڈی کے خیالات ہیں۔
صرف بیٹی ہی نہیں بیٹوں کے بارے میں بھی یہی نظریہ ہے۔ ضرورت رشتہ کو نظریہ رشتہ بنادیا جاتا ہے۔ پرکھوں کی زبان کو بچانے کےلیے، چاچے، تایوں کی قبروں کو دیکھتے ہوئے اولاد کو قربانی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ بیٹا انجینئر ہوتا ہے تو اس کی شادی اَن پڑھ لڑکی سے کردی جاتی ہے۔ بیٹی ڈاکٹر تو اسے کسی ’’بابے دلہے‘‘ کی دلہن بنادیا جاتا ہے۔ جیسے اولاد نہ ہو بھیڑ بکری ہو، جہاں چاہا، جیسے چاہا کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا۔ مان جائے تو دیوی نہ مانے تو چھنال۔
اگر بات بن بھی جائے تو لوگ لڑکیوں کا رشتہ دیکھنے جاتے ہیں، وہاں کیا دیکھتے ہیں؟ لڑکی چلتی کیسے ہے؟ اٹھتی، بیٹھی کیسے ہے؟ اس کا رنگ کیسا ہے؟ ناک اور آنکھیں کیسی ہیں؟ ٹیڑھا تو نہیں دیکھتی، بات کرتے ہوئے ہکلاتی تو نہیں۔ گھر میں کیا کیا ہے؟ جہیز میں کتنا ملے گا؟ چاہے ماں باپ کا گھر بمشکل چلتا ہو لاکھوں جہیز مانگ لیا جاتا ہے۔ جب کھا پی کر تسلی ہوجاتی ہے تو جاتے ہوئے کہا جاتا ہے ’’ہمیں آپ کی لڑکی پسند نہیں آئی‘‘۔ سوچیے اس لڑکی پر کیا گزرتی ہوگی۔
اس وقت متوسط طبقے کے بہت سے گھرانوں میں ایک بحران پیدا ہو رہا ہے،خواتین کم عمری میں شادی نہیں کرنا چاہتیں اور مرد پرعزم رشتوں سے زیادہ آرام دہ تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ تمام حلقوں سے دباؤ کے باعث، سنگل لوگ اکثر ایسے رشتوں کا ارتکاب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو محبت کے بغیر یا بے جوڑ ہیں ۔
28 سالہ نوا جوان جو اچھی خاصی نوکری کرتے ہیں بتایا کہ ’’میری والدہ میرے لیے بلائنڈ ڈیٹس کا بندوبست کر رہی ہیں۔ہر بار جب ناکام گھر لوٹتا ہوں تو مجھے سنگل کا طعنہ دیا جاتا ہے‘‘درحقیقت ملک بھر کے روایتی گھرانوں میں سنگل رہنے کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ اس کا زیادہ تر تعلق "لوگ کیا کہیں گے" سے ہے لیکن جیسا کہ (آئندہ) مردم شماری کے نتائج ظاہر کرتے ہیں، جس عمر میں لوگوں کی شادیاں ہو رہی ہیں وہ بڑھتی جا رہی ہیں۔ اور چونکہ اس وقت تک وہ اپنے دماغ کو کچھ بہتر جانتے ہیں، اس لیے طلاقیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
ایک ٹیلی کام کمپنی میں ملازم کہتے ہیں کہ ’’اسلام آباد میں آدمی تب ہی شریف آدمی بن سکتا ہے جب وہ شادی کر لیتا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ صحیح یا غلط طور پر، بہت سی کمپنیاں شادی شدہ لوگوں کو زیادہ مستحکم ملازمین کے طور پر بھی دیکھتی ہیں، شاید اس لیے کہ یہ مفروضہ ہے کہ خاندان کی ذمہ داری رویے میں رکاوٹ ہے۔کہتے ہیں کہ وہ والدہ کے غیر شادی شدہ ہونے کے طعنوں سے بچنے کے لیے کراچی سے "بھاگ" گیا تھا۔ "وہ پوتے پوتیاں چاہتی تھی لیکن اسلام آباد میں بھی وہ اپنے سماجی حلقوں میں چھان بین کی چکاچوند سے بچ نہ سکے۔
ایک اندازے کے مطابق 2020 میں، پاکستان میں مرد اور خواتین کا تناسب 106.02 مرد فی 100 خواتین تھا۔ 1950 اور 2020 کے درمیان، پاکستان میں مرد اور خواتین کا تناسب 1950 میں 119.79 مرد فی 100 خواتین سے کم ہو کر 2020 میں 106.02 مرد فی 100 خواتین پر آگیا ہے۔یہ مزید کم ہوسکتا ہے۔ملک میں خواتین بڑھتی جارہی ہیں اور مرد کم ہورہے ہیں ۔
یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے جو روز بروز خطرناک ہوتا جارہا ہے،معاشرے کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کیلئے کچھ لچک دکھانے کی ضرورت ہے،لڑکوں ،لڑکیوں اور ان کے والدین کو اپنے معیار کو تھوڑا سا آگے پیچھے کرنا ہوگا ،ایسا نہ ہوا تو خدانخواستہ پورا پاکستان کنوارہ رہ جائے گا ۔
نوٹ : تحریر بلاگر کے ذاتی خیالات ہیں ،ادارے کا اس سے متفق ہونا ضرور ی نہیں ۔ادارہ