کراچی میں امریکی خاتون کے بعد لاہور میں افریقی خاتون کے ورثا کی تلاش’غیرملکی زبان میں مشکوک نوٹ‘

Stay tuned with 24 News HD Android App

(ویب ڈیسک)کراچی میں امریکہ سے آنے والی خاتون کے معاملے کے کچھ ماہ بعد لاہور میں ایک افریقی خاتون کی نئی کہانی سامنے آئی ہے ، 30 سالہ افریقی خاتون جو مشرقی افریقہ سے ہیں اور ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد آئی تھیں جہاں سے وہ پشاور پہنچیں اور وہاں گرفتار ہوئیں جس کے بعد وہ ڈیڑھ سال تک جیل میں رہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور کے ایدھی ہومز میں گزشتہ دنوں 30 برس کی ایک افریقی خاتون مریم نے پناہ لی جو کسی اجنبی زبان میں بات کر رہی تھیں،انہوں نے اپنی بات لکھ کر سمجھانے کی کوشش بھی کی مگر کوئی اُن کی بات سمجھ نہیں پا رہا تھا تو مصنوعی ذہانت کی مدد حاصل کی گئی جس سے یہ معلوم ہوا کہ اس خاتون نے اپنا پیغام مشرقی افریقہ کی ایک زبان میں لکھا تھا۔
مریم آج سے ڈیڑھ سال قبل لاہور سے ہی لاپتہ ہوئی تھیں جبکہ چند روز قبل وہ گرین ٹاؤن پولیس سٹیشن سے ایدھی ہومز پہنچیں، اس پورے معاملے کو سٹی ٹریفک پولیس ایجوکیشن ونگ کی انچارج فہمیدہ ذیشان دیکھ رہی ہیں،فہمیدہ ذیشان نے میڈیا کو بتایا کہ ایدھی ہومز میں فالو اپ سیشنز میں جب انہوں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ انگریزی بول سکتی ہے تو انہوں نے ہاں میں جواب دیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مریم سے پوچھا کہ وہ کہاں سے ہیں اور پاکستان میں اُن کی قانونی حیثیت کیا ہے تو انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ وہ مشرقی افریقہ سے ہیں اور ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد آئی تھیں،ترقی پذیر ممالک سے لوگ جس طرح ملازمتوں یا سرمایہ کاری کے لیے دبئی جاتے ہیں تو ہمیں مریم کا کیس بھی ایسا ہی معلوم ہوا۔
فہمیدہ ذیشان بتاتی ہیں کہ مریم نے انہیں بتایا کہ وہ اسلام آباد سے پشاور پہنچیں اور وہاں گرفتار ہوئیں جس کے بعد وہ ڈیڑھ سال تک جیل میں رہیں اور پھر لاہور واپس پہنچیں، اس خاتون سے متعلق چوںکہ تفتیش ہو رہی ہے اس لیے تاحال پشاور میں ان کی گرفتاری سے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
مریم نامی یہ افریقی خاتون جب ایدھی ہومز لاہور پہنچیں تو ’میرا پیارا ایپ‘ کی ٹیم نے ان کی کمیونٹی کے لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کی،ان کی ذہنی حالت بھی کمزور بتائی جا رہی ہے۔
فہمیدہ ذیشان اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ ’ہم نے جب ان کا انٹرویو کیا تو انہوں نے اپنی زبان میں ایک مشکوک نوٹ لکھا لیکن ہم اسے سمجھ نہیں سکے تاہم باتوں باتوں میں انہوں نے لاہور کے علاقے فیصل ٹاؤن کا ذکر بھی کیا جو ایک اہم پیشرفت تھی۔‘
سٹی ٹریفک پولیس اور ’میرا پیارا ایپ‘ کی ٹیم فیصل ٹاؤن میں مختلف مقامات پر پہنچی تاکہ خاتون کے ورثا کو تلاش کیا جا سکے،فہمیدہ ذیشان کے بقول ’فیصل ٹاؤن میں کافی تلاش کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ یہاں ایک مسجد میں چند افریقی مرد نماز پڑھنے آتے ہیں،ہم نے بہت دیر تک انتظار کیا لیکن کوئی نہیں آیا جس کے بعد ہم نے اپنا نمبر وہاں مسجد میں مقامی لوگوں کو دیا تاکہ کسی بھی قسم کی پیشرفت کے بعد ہم سے رابطہ کیا جا سکے۔‘
افریقی خاتون کا اپنی ’سواحلی زبان‘ میں لکھا گیا ہے جو مشرقی افریقہ (خصوصاً کینیا، تنزانیہ، یوگنڈا وغیرہ) میں بولی جاتی ہے،مصنوعی ذہانت کے ایڈوانس ورژن کے ذریعے اس نوٹ کا ترجمہ بتاتا ہے کہ یہ خاتون کسی سے مدد مانگ رہی ہیں۔
اس نوٹ میں لکھا گیا ہے ’میں مریم ہوں،میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ میں اس وقت ایک جگہ پر ہوں جسے ’ایدھی ہومز‘ کہا جاتا ہے۔ میں آپ سے التجا کرتی ہوں کہ آپ خود آئیں اور مجھے یہاں سے نکالیں، یا میرے لیے کسی ایسے شخص کو بھیج دیں جو آ کر مجھے یہاں سے نکالے، اور وہ شخص کچھ بھی (بطور معاوضہ) نہ لے۔ یہ کسی مالی منصوبے یا پیسوں کا معاملہ نہیں ہے۔‘
اس نوٹ کے مطابق خاتون کسی سے درخواست کر رہی ہیں تاکہ انہیں یہاں سے لے جایا جا سکے۔
چند دنوں بعد ’میرا پیارا ایپ‘ کی ٹیم کو ایک فون کال موصول ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ مریم کو جانتے ہیں، فہمیدہ ذیشان بتاتی ہیں ’فون کال کے بعد ہم 2بھائیوں اور ایک اور شخص سے ملے جو دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ مریم کے ملک سے ہیں، انہوں نے مریم کی تصویر اور اس کے لکھے ہوئے نوٹ کو دیکھا اور تصدیق کی کہ وہ ان کے ملک سے ہیں، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مریم کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے،ان کے مطابق یہ تینوں جب مریم کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ مریم کے خاندان کو جانتے ہیں اور اس کی تصویر اور تمام دستاویزات مشرقی افریقہ بھیجیں گے تاکہ اس کی شناخت کی تصدیق ہو سکے اور ان کا خاندان مل سکے،حکام کے مطابق مریم کے پاس ویزا اور دیگر ضروری دستاویزات نہیں ہیں۔
فہمیدہ ان3 مردوں کے متعلق بتاتی ہیں کہ مریم انہیں دیکھ کر مسکرائیں اور کہا کہ وہ ان کے ملک سے ہیں ’ہمیں لگتا ہے کہ یہی ان کے بھائی ہیں لیکن تاحال مکمل تصدیق نہیں ہوئی، انہوں نے بتایا کہ افریقہ ریکارڈ بھیجنے کے بعد تصدیق ہوجائے گی اور ان کا ویزا اور دیگر ضروری دستاویزات یہاں بھیج دی جائیں گی۔‘
حکام نے ریڈ کراس سے رابطہ کر کے مریم کی تفصیلات اور تصاویر بھیج دی ہیں۔
فہمیدہ ذیشان کے مطابق جب ہمیں ان کے بھائیوں یا ریڈ کراس سے تصدیق مل جائے گی تو ہم مریم کو اس کے خاندان سے ملانے کا بندوبست کریں گے،وہ پہلے ہی اپنے ملک کے بھائیوں سے مل چکی ہیں لیکن ہم دستاویزات کے عمل کو مکمل کرنے پر کام کر رہے ہیں۔‘
حکام کے مطابق ان افریقی شہریوں نے بتایا کہ وہ لاہور میں کپڑوں کی برآمد و درآمد سے منسلک ہیں، فہمیدہ کے بقول ’ان تینوں افریقی شہریوں نے مکمل تصدیق ہونے تک مریم کو ایدھی ہومز میں رکھنے کی درخواست کی ہے تاکہ ان کا خیال رکھا جائے، وہ بتا رہے تھے کہ مریم کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے اس لیے جب تک مکمل تصدیق نہ ہوجائے تب تک یہ ایدھی ہومز میں ہی رہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 10سالہ بچت کے بعد خریدی گئی 8 کروڑ سے زائد کی فراری منٹوں میں جل کر راکھ