لاڈلے کا خوف
تحریر:اظہر تھراج
Stay tuned with 24 News HD Android App
لاڈلے بھی عجب ہوتے ہیں اور ان کو پالنے والے بھی ۔اکثر حد سے زیادہ لاڈ پیار بھی ان کو بگاڑ دیتا ہے،جب لاڈلے بگڑ جائیں تو ان کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے،جس کی تازہ مثال حالیہ سیاسی صورتحال ہے ،یہاں بھی ایک لاڈلے کو اتنا سنبھالا گیا کہ اب سنبھل نہیں رہا تو خوف کی علامت بن گیا ہے،اس کیخلاف کہیں سے بھی کوئی سی بات آتی ہے تو مخالفت کرنے والے کی ایسی کی تیسی پھیر دی جاتی ہے،تصاویر پرکالک ملی جاتی ہے،جوتے مارے جاتے ہیں،سوشل میڈیا پر اتنی ٹرولنگ کی جاتی ہے کہ الحفیظ الامان ۔
بات صرف یہاں نہیں رکتی ۔جلسوں جلوسوں میں اداروں ،ان کے سربراہوں ،عدلیہ کے ججوں کے نام لے لے کر دھمکیاں دی جاتی ہیں پھر بھی گرفتاری نہیں ہوتی ۔مقدمہ درج ہوا لیکن اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے تین دن کیلئے ضمانت دے دی حالانکہ جو ان پر کیس ہے اس میں ضمانت نہیں بنتی ۔حالانکہ اسی طرح کے مقدمے میں مسلم لیگ ن کے تین رہنما طلال چودھری ،دانیال عزیز اور نہال ہاشمی نااہل ہوچکے ہیں ۔ایسی کیا وجہ ہے کہ دوسروں کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے تو ان کے خلاف کیوں نہیں؟
ضرور پڑھیں :پنجاب میں ایمرجنسی نافذ
بات سادہ سی ہے ،اس وقت ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کو حکومت قبول کرنے کا سودا مہنگا پڑ رہا ہے،عمران خان مشکل میں تھے،ان کے ساتھی اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے تھے،مہنگائی عروج پر تھی ،ایم این ایز ،ایم پی ایز کے کام نہیں ہورہے تھے،وہ حیرت میں تھے کہ کیا بنے گا ؟ اس وقت ن لیگ کا ٹکٹ ہاٹ کیک تھا ،لوگ اسی لئے منحرف ہوئے اور ن لیگ کے ٹکٹ لئے، شہباز شریف وزیر اعظم وہ کام کرنے میں ناکام رہے جو کرنے آئے تھے،عوام کی مشکلیں بڑھیں تو عمران خان کا بیانیہ مقبول ہوا ۔وہ اپنے ووٹرز ،سپورٹرز کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ٹھہرے کہ مہنگائی کوئی اور ذمہ دار تھے وہ نہیں ۔اب اتحادیوں کیلئے حکومت چھوڑنا اور رکھنا دونوں آسان نہیں ہے۔ضمنی انتخابات ہوئے ہیں اس سے پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل گیا ،ن لیگ چاہتی ہے وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرے۔جس طرح عمران خان کی ساکھ بحال ہوئی ہے،ان کی ساکھ بھی بحال ہوسکتی ہے۔
یہ حکومت نواز شریف کی مرضی کے مطابق ہی لی گئی تھی ،فوائد کو دیکھ کر ہی حکومت لی گئی تھی لیکن ن لیگ سیاسی فائدہ حاصل نہیں کرسکی ۔شہباز شریف کا خیال تھا کہ حکومت میں آنے پر ریلیف مل جائے گا ،نہ تو نواز شریف واپس آسکے اور نہ مریم نواز باہر جاسکتی ہیں ۔شہباز شریف کے بارے میں جو تاثر تھا وہ ممکن نہیں بناسکے۔اس وقت حکومت لینا غلط تھا تو اس وقت حکومت چھوڑنا بھی غلط ہے۔اس وقت ن لیگ کیلئے آگے کنواں تو پیچھے کھائی والی صورتحال ہے۔
یہ بھی پڑھیں :ملک بھر میں بڑی خرابی دور ،انٹر نیٹ سروس بحال
1970 کے بعد عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جماعتیں غیر متعلق ہوگئی تھیں ،ان میں جان ضیا الحق نے بھری ۔اس وقت مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی ،فضل الرحمان سیاست سے عملی طور پر غیر متعلق ہیں ،ان کا پاکستان کے مسائل سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا ۔شہباز شریف لاڈلے یعنی عمران خان کیلئے جو فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتحادی رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔اگر اس حکومت نے تین ماہ میں معاشی صورتحال سے ثابت کردیا ہے کہ جب بھی الیکشن ہوں گے عمران خان ہی سب سے بڑی شخصیت ہوں گے،عمران خان نے اقتدار میں آنا ہے کوئی روک نہیں سکتا ،دیکھنا ہے کہ انہوں نے اس کیلئے کیا تیاری کی ہے۔بغیر تیاری سے آئے تو پہلے سے برا حال ہوگا ۔
پی ٹی آئی دیکھ رہی ہے کہ ’’سازش ‘‘ ہورہی ہے،ان کا خیال ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد کا دوسرا مرحلہ ہے،اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ذوالفقار بھٹو کے کیس میں کچھ نہیں تھا پھر بھی اسے پھانسی دے دی گئی ۔اس بات کو وکلا بھی مانتے ہیں کہ یہ ایک ’’عدالتی قتل‘‘ تھا ۔نوازشریف کو ایک چھوٹی سی چیز پر ناک آئوٹ کردیا گیا ۔یہ اس پر منحصر ہے کہ سیاسی حالات کیا ہیں،کیا ممکن ہے یا نہیں ۔نواز شریف کے خلاف کرپشن ثابت نہیں ہوئی ۔ان کو بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ ملنی تھی وہ نہیں لی ۔ایک تصور کی بنیاد پر ان کے خلاف ایکشن لینا آسان ہوگیا ۔اس وقت تصور یہ تھا کہ نواز شریف بہت خیر مقبول ہوچکے تھے،اپوزیشن کی مہم کی وجہ سے لوگ ان کو ’’کرپٹ‘‘ سمجھنے لگے تھے، عمران خان کے حوالے سے صورتحال مختلف ہے پی ٹی آئی کے لوگ عمران خان کیخلاف کسی بھی الزام کو ماننے کو تیار نہیں ۔پی ٹی آئی ہر بات کو ’’سازش ‘‘ سے نتھی کررہی ہے چاہے وہ جتنا بھی سنگین ہو ۔آج ٹیکنیکل بنیاد پر عمران خان کو ناک آئوٹ کرنا مشکل ہے ۔عمران خان للکار رہا ہے،بکری بننے کو تیار نہیں ۔سیاسی سپورٹ زیادہ ہے ۔عمران خان کو نااہل کرواکے’’مائنس ‘‘ کردیا جائے لیکن منصوبہ ساز عوامی ردعمل سے خائف ہیں ۔عمران خان کی اخلاقی پوزیشن نوازشریف سے بہتر ہے،صورتحال مختلف ہے۔
لازمی پڑھیں: عمران خان کی تقاریر براہ راست دکھانے پر پابندی عائد
سیاسی رہنمائوں کی قسمت کے فیصلے اداروں میں نہیں ہوتے،ان کی قسمت کے فیصلے اللہ کے بعد عوام کرتے ہیں،عوام چاہیں گے تو کوئی بھی طاقت عمران خان کی سیاست کو ختم نہیں کرسکتا ۔ عمران خان کو ضرور تنگ کیا جائے گا، اور کیا جارہا ہے،ان کیلئے مشکل ہوگی ،نوازشریف کو سزا کے وقت عمران خان اچھل کود نہ کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔کہتے ہیں کہ دشمن مرے تے خوشی نہ کریے انت سجناں وی مر جاناں۔کل ن لیگ اور پیپلز پارٹی تکلیف میں تھے تو آج عمران خان ۔آنیوالے جانیوالوں کو انتقام کا نشانہ بناتے ہیں۔شاید یہی ہماری سیاست ہے ۔اگر لاڈلے کی مقبولیت کے خوف سے کوئی سزا نہ ہوئی تو یہ قانون کی بالا دستی اور نظام انصاف کیلئے نقصان دہ ہوگا ۔
بلاگرسٹاف ممبر، سینئر صحافی، یوٹیوبر اور مصنف ہیں۔ روزنامہ خبریں، نوائے وقت اور ڈیلی پاکستان میں کام کرچکے ہیں۔ ان سے ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر @azharthiraj کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔