بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی موت حادثہ قرار
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) سماجی کارکن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں اچانک موت کے کیس میں پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ کریمہ بلوچ کی موت جن حالات میں ہوئی اس سے متعلق تحقیقاتی افسروں کو کسی قسم کی گڑبڑ کا شبہ نہیں ہے۔
ٹورونٹو پولیس نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں لکھا کہ حالات کی چھان بین کی گئی ہے اور افسروں نے اس کو غیر مجرمانہ موت قرار دیتے ہوئے حادثہ قرار دیا ہے اور ہم نے فیملی کو آگاہ کر دیا ہے۔
ٹورنٹو پولیس کے مطابق کریمہ بلوچ 20 دسمبر کو لاپتہ ہوئی تھیں۔ ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ان کے شوہر حمل حیدر بلوچ نے پولیس کو دی جبکہ 21 دسمبر کو ان کی لاش پانی سے برآمد ہوئی۔واضح رہے کہ کریمہ بلوچ کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع تربت سے تھا اور جان کو لاحق خطرات کے باعث انھوں نے کینیڈا میں سیاسی پناہ حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد وہ کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ میں اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں بلوچستان کے مسائل اجاگر کرتی رہیں۔
دوسری جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بڑی تعداد میں لوگ انھیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ ماما قدیر بلوچ کہتے ہیں کہ انہوں نے کریمہ بلوچ کو ایک بہادر خاتون پایا۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جب سنہ 2008 کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے اور ان کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہونے کے بعد خوف کا ماحول پیدا ہوا تو مرد سیاسی کارکنوں کے لئے نکلنا مشکل ہو گیا مگر کریمہ بلوچ خوف کے اس ماحول میں بھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ان کا کہنا ہے کہ انھیں یاد ہے کہ سنہ 2013 میں جب وہ کراچی میں تھے تو کریمہ بلوچ نے کوئٹہ میں ایک بڑی احتجاجی ریلی کا پروگرام بنایا اور انھیں اس میں شرکت کے لیے کراچی سے بلایا تھا۔انہوں نے کہا کہ کریمہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ بلوچستان میں حقوق انسانی کی پامالی روکنے کے لئے حکومت پر دباو¿ ڈالنے کے لیے ایک ماحول پیدا کیا جائے۔ماما قدیر نے بتایا کہ کینیڈا میں جلاوطنی کے دوران بھی کریمہ کا فون آیا کرتا تھا اور وہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرتی تھیں۔انھوں نے کہا کہ کینیڈا سے فون آنے پر جب میں ران سے پوچھتا کہ کیا وہ کینیڈا میں خوش ہیں تو وہ کہا کرتی تھیں کہ ماما کون اپنی سرزمین سے دور رہ کر خوش رہ سکتا ہے‘ بس مجبوری ہی ہے جس کی وجہ سے وہ کینیڈا میں ہیں۔
کریمہ بلوچ کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں میں کالعدم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین ابرم بلوچ بھی شامل ہیں۔ابرم بلوچ کہتے ہیں کہ کریمہ بلوچ نے اس وقت تنظیم کی قیادت سنبھالی جب بلوچستان میں مرد سیاسی کارکن اعلانیہ سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے نکلتے ہوئے کئی بار سوچتے تھے۔ابرم بلوچ نے بتایا کہ مارچ 2014 میں کوئٹہ سے بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ کو کریمہ بلوچ کی آنکھوں کے سامنے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا لیکن کریمہ بلوچ اس سے خوفزدہ نہیں ہوئیں بلکہ وہ بہت زیادہ مضبوط ہوئیں جس کے باعث ان کو تنظیم کا چیئرپرسن منتخب کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ نہ صرف ایک بہادر خاتون تھیں بلکہ ان میں سب سے زیادہ اور پہلے سختی برداشت کرنے اور قربانی پیش کرنے کا جذبہ بھی تھا۔
حقوق انسانی کی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ انھیں کوئٹہ میں کریمہ بلوچ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں قوت برداشت بہت زیادہ تھی اور کسی بھی تنقید کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتی تھی۔ماہ رنگ بلوچ کے مطابق کریمہ ’جدوجہد کی علامت‘ تھیں اور انھوں نے بی ایس او کی قیادت اس وقت کی جب ان کے ’تمام ساتھیوں کو لاپتہ کیا گیا، اور ان میں سے بعض کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔انھوں نے کہا کہ ’لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کمزور ہیں لیکن کریمہ بلوچ نے اسے غلط ثابت کیا اور خوف کے ماحول میں بے خوف ہو کر جدوجہد کی۔جب وہ کینیڈا میں تھی تو وہاں بھی ان کو دھمکیاں دی گئیں مگر وہ پیچھے نہیں ہٹیں۔ لوگ خوف کے ماحول میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن کریمہ بلوچ میں نہ صرف ایسے ماحول میں خود کھڑی ہونے کی صلاحیت تھی بلکہ دوسروں کو بھی کھڑا کرنے کی خوبی تھی۔