سینٹ ریفرنس، فریقین کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت،ساری مشق کو ضائع نہیں کرناچاہتے ،چیف جسٹس

Feb 23, 2021 | 18:39:PM


(24نیوز) اوپن بیلٹ کے ذریعے سینٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی بار کونسلز کے دلائل نہ سننے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس ،جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ الیکشن کے حوالے سے پاکستان اور آئرلینڈ کا آئین ایک جیسا ہے، آئرلینڈ میں بھی انتخاب خفیہ بیلٹ سے ہوتا ہے۔ قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے اور اگرقانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں۔
 تفصیلات کے مطابق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل میں آئرلینڈ کے آئین کا حوالہ د یا اور کہا کہ آئرلینڈ میں ایوان زیریں میں ووٹنگ کا خفیہ ہونا لازم ہے لیکن ہم یہاں ایوان بالا کی بات کر رہے ہیں، یہ درست ہے کہ ووٹر کا حق اوپن بیلٹ نہیں ہوسکتا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں کسی کا کوئی حق نہیں بنتا، اس میں کوئی اپنے حق کا دعویٰ نہیں کر سکتا یہ ریسلنگ نہیں ہے۔ 2013 کے ریفرنس میں کسی بار ایسوسی ایشن کو نہیں سنا گیا جس پر سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو شاید غلط فہمی ہے ،سینٹ اور قومی اسمبلی عوام کے لئے کام کرتے ہیں،سندھ ہائیکورٹ بار کا نکتہ نظر رضا ربانی اور اٹارنی جنرل سے مختلف ہے ہمیں سنا جائے، انہوں نے کہا ہر شخص کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے خلاف ہے،جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس ساری مشق کو ضائع نہیں کرنا چاہتے، آئین کی تشریح کے لئے جس کی معاونت چاہئے ہوگی ،لیں گے یہ مخالفانہ مقدمہ نہیں۔

 اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کو ہمیں ضرور سننا چاہئے کیونکہ امیدوار پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے ہیں جو متاثر ہو سکتے ہیں ،انہوں نے کہا کراچی سے ویڈیو لنک پر 45 منٹ کے دلائل کی اجازت دے دیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں آپ اسلام آباد میں ہی رہیں ۔
 پیپلزپارٹی کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیئے کہ جن آئرش انتخابات کا حوالہ دیا گیا وہاں خفیہ ووٹنگ کا مکمل تقدس برقرار ہے، ایوان بالا یا زیریں کا مسئلہ نہیں، ووٹ کے خفیہ ہونے کا معاملہ ہے، متناسب نمائندگی کا مطلب یہ نہیں کہ اسمبلی کی اکثریت سینٹ میں بھی ملے، متناسب نمائندگی نظام کے تحت سیٹیوں کی تعداد میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ پیسے لینے والا ووٹنگ سے پہلے کرپشن کر چکا ہوتا ہے، جہاں ووٹوں کی خرید و فروخت ہوگی قانون اپنا راستہ بنائے گا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر معاہدہ ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھر کیا ہوگا، ووٹ ڈالنا ثابت ہوگا تو ہی معلوم ہوگا رقم الیکشن کے لئے دی گئی۔ 
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ایسا طریقہ بھی بتا دیں ووٹ دیکھا بھی جائے، سکریسی بھی متاثر نہ ہو۔دوران سماعت رضا ربانی نے کہا کہ کوئی پیسے لیتا پکڑا گیا تو کوئی شواہد بھی ہوں گے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جہاں ویڈیو آچکی ہوگی وہاں کوئی کارروائی ہوگی؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسا کوئی نظام نہیں کہ معلوم ہو سکے کس کو کس نے ووٹ دیا؟ جس پر رضا ربانی نے کہا کہ آئین ووٹ ڈالنے والے کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رشوت ووٹ سے جڑی ہے تو اس کا جائزہ کیسے نہیں لیا جاسکتا۔جس پر رضا ربانی نے کہا کہ رشوت کسی کو ووٹ نہ ڈالنے کے لئے بھی دی جاسکتی ہے، جو پیسے ہی اس بات کے لے کہ ووٹ نہیں ڈالوں گا تو کیسے پکڑیں گے؟ ۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ ہی نہ ڈالا جائے تو شناخت کی ضرورت نہیں، کوئی ووٹ نہ ڈالے تو پیسہ لینا ثابت کرنا ہوگا۔اس پر رضا ربانی نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال سینٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کے اطلاق کا ہے۔میں کل اپنے دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
سپریم کورٹ نے رضا ربانی، پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ ن کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ، پاکستان بار اور سندھ بار کونسل کو کل آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی، امکانٰ ہے کہ کل ریفرنس پر سماعت مکمل کر لی جائے گی۔ 

مزیدخبریں