(24 نیوز) چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے، انتخابات میں تاخیر کو مزید طول نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں لارجر بنچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے تین معالات ہیں۔ وکیل تحریک انصاف علی ظفر نے بتایا کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے، اسے بھی ساتھ سنا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہونگے، وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا، سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں چیزیں واضح نہیں، ہم نے دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے، انتخابات میں تاخیر کو مزید طول نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سینئر وکلا کمرہ عدالت میں بیٹھے ہیں انکی معاونت چاہیئے ہوگی، اس کیس کیلئے روٹین کے کیسز نہیں سنیں گے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ نے بینچ کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ از خود نوٹس پر تحفظات ہیں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ از خود نوٹس بعد میں لیا پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اعتراض اٹھایا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بنچ میں تھے جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا، سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو کیسے بلا لیا گیا ؟ میرے نزدیک یہ از خود نوٹس نہیں بنتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بھی از خود نوٹس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی جس پر از خود نوٹس لیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس اطہر من اللہ کے سوالات اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے تحفظات کو اپنے حکم میں دیکھیں گے، یہ الگ بحث ہے کہ از خود نوٹس لینا چاہئے تھا یا نہیں، بنیادی حقوق کا معاملہ ہونے پر از خود نوٹس لیا
جسٹس جمال جان مندوخیل نے کہا کہ کچھ آڈیوز سامنے آئی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184/3 کا نہیں بنتا۔
جسٹس اطہر من االلہ نے کہا کہ ہم اس کیس میں آئینی شک پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184 تین میں دیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے تین سوالات تھے چوتھا سوال جسٹس اطہر من اللہ کا بھی شامل کر رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سوال بھی دیکھا جائے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد کیا بحال ہوسکتی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے کیس کی تیاری کیلئے مزید وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کیلئے تیاری مشکل ہو پائے گی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے۔
صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے درخواست کو کیس کیساتھ سننے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی درخواست بھی دیکھ لیں گے۔
سیکرٹری اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے شعیب شاہین کی درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ صدر نے ہم سے مشاورت نہیں کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں کو بھی سننا چاہتے ہیں۔ صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے استدعا کی کہ سیاسی جماعتوں کو فریق نہ بنایا جائے۔
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے سیاسی جماعتوں کو سننے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سمیت سب جماعتیں بتائیں کہ انتخابات کب کسیے کرانے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پی ڈی ایم میں کئی جماعتیں ہیں ان کو بھی سننا چاہیئے، تحریم انصاف کے وکیل بھی موجود ہیں، سب جماعتوں کو موقع دینا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو لازمی سننا چاہیئے۔
وکیل پی ٹی آئی ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ سے ریکارڈ بھی منگوا لیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ریکارڈ منگوا کر وقت ضائع نہیں کر سکتے، آج نوٹس کرنے کے علاوہ کوئی حکم جاری نہیں کریں گے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اسلام ہائیکورٹ بار اور پنجاب اور کے پی کے سابق اسپیکرز کی درخواستیں آئیں، درخواستوں میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی استدعا کی گئی، صدر مملکت نے 20 فروری کو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، لاہور ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ میں اسی نوعیت کے معاملے زیر سماعت ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ڈی ایم کے علاوہ اور جماعتیں آنا چاہیں تو پیش ہوسکتی ہیں، لاہور ہائیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد انتخابات کرانے کا حکم دیا، لاہور ہائیکورٹ کے حکم کو انٹراکورٹ اپیل میں چیلنج کر دیا گیا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ انتحابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔
بعد ازاں عدالت نے صدر، گورنرز، الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی۔