(24 نیوز)پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد میں تاخیر پر سپریم کورٹ کی جانب سے لئے گئے ازخودنوٹس پر جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ازخودنوٹس پر سماعت کا آغاز ہوا تو پہلے دن کی سماعت کے آغاز پر ہی جسٹس جمال مندوخیل نے اعتراض اٹھایا کہ چیف جسٹس پاکستان کی طرف سے لیاگیا ازخودنوٹس نہیں بنتا،انہوں نے کہاکہ میری رائے میں جن حالات میں ازخود نوٹس لیاگیا وہ نہیں بنتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے نوٹ میں کہا جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے معطلی کے ایک کیس کے دوران الیکشن کے انعقاد پر چیف الیکشن کمشنر کو طلب کیا اور الیکشن کے انعقاد پر بات کی جس کا زیرسماعت کیس سے کوئی تعلق نہیں بنتاتھا ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے اسی کیس کے دوران ازخودنوٹس کیلئے نوٹ چیف جسٹس پاکستان کو بھجوایا جس میں انہوں نے تشویش کااظہار کیا کہ 90 دن میں انتخابات ضروری تھے جو نہیں کروائے گئے ۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح ان دو ججوں نے اپنی حتمی رائے کااظہار کیا ،چیف جسٹس پاکستان نے بھی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے ازخودنوٹس لے لیا،بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چیف جسٹس نے بھی حتمی رائے کااظہار کردیا،تینوں ججوں کی حتمی رائے سامنے آنے کے بعد ان ججوں کا بنچ میں بیٹھنا آئین کے آرٹیکل 10 اے کی خلاف وزری ہے۔
جبکہ قانونی ماہرین کا بھی کہناہے کہ جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ تینوں ججوں کی بنچ میں موجودگی پر کھلا اعتراض ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر عہدے پر بحال، نوٹیفکیشن جاری