(24 نیوز )پاکستان کا آئین بطور مسلم ملک الہامی کتابوں کے بعد معزز ترین کتاب سمجھا جاتا ہے جس میں شہریوں کو ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں ،جو کہ مختلف آرٹیکل کی صورت میں شہریوں کی مدد کیلئے ہر وقت موجود ہے ، جس کے آرٹیکل ’’10 اے ‘‘ کی اس وقت پورے ملک میں باز گشت سنائی دے رہی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق پورے ملک میں آرٹیکل 10 اے کی باز گشت ہے آئین میں آرٹیکل 10 کے تحت کسی بھی شہری کو آزادانہ ٹرائل کیساتھ ساتھ 10 اے کی شکل میں منصفانہ ٹرائل کا حق بھی حاصل ہے ۔
آرٹیکل 10 اے ہے کیا اور اسے آئین میں کب شامل کیا گیا نوبت کب پیش آئی ؟
یہ وہ سوال ہے جو اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ، آرٹیکل 10اے کا آئین میں اضافہ 18 ویں ترمیم کے تحت کیا گیا ، اس ترمیم میں صدر سے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی واپس لیا گیا تھا۔
آرٹیکل 10 اے کے تحت شہری حقوق اور ذمہ داریوں کے تعین کے لیے یا اس کے خلاف کسی مجرمانہ الزام میں کوئی شخص منصفانہ مقدمے اور مناسب کارروائی کا حقدار ہوگا۔
آرٹیکل 10 اے کی بازگشت کیوں؟
آرٹیکل 10 اے کی اس وقت بازگشت اس لیے سنائی دے رہی ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد میں تاخیر پر سپریم کورٹ کی جانب سے لئے گئے ازخودنوٹس پر جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا ہے ، جس میں جسٹس جمال مندوخیل نے اعتراض اٹھایا کہ چیف جسٹس پاکستان کی طرف سے لیاگیا ازخودنوٹس نہیں بنتا،ان کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے اسی کیس کے دوران ازخودنوٹس کیلئے نوٹ چیف جسٹس پاکستان کو بھجوایا جس میں انہوں نے تشویش کااظہار کیا کہ 90 دن میں انتخابات ضروری تھے جو نہیں کروائے گئے ،
جسٹس مندو خیل کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح ان 2 ججوں نے اپنی حتمی رائے کااظہار کیا چیف جسٹس پاکستان نے بھی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے ازخودنوٹس لے لیا،بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چیف جسٹس نے بھی حتمی رائے کااظہار کردیا،تینوں ججوں کی حتمی رائے سامنے آنے کے بعد ان ججوں کا بنچ میں بیٹھنا آئین کے آرٹیکل 10 اے کی خلاف وزری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا جسٹس جمال مندوخیل نے لارجر بنچ کے 3 ججز پر اعتراض اٹھادیا؟