پی ٹی آئی ایک بار پھر انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کو تیار،نیا چیئرمین کون ہوگا؟

Jan 23, 2024 | 10:28:AM

Read more!

سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد سابق وزیراعظم کی جماعت اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم ہو گئی ہے جس کے باعث سابق حکمراں جماعت کے انتخابات میں حصہ لینے والی امیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔پی ٹی آئی کے امیدواروں کے پاس اب کوئی ایک انتخابی نشان نہیں بلکہ سینکڑوں انتخابی نشان ہیں۔پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ جہاں سینکڑوں انتخابی نشانات کی وجہ سے پی ٹی آئی کو الیکشن مہم چلانے میں دشوار ی کا سامنا ہے وہاں سب سے زیادہ خدشہ آزاد حثیت سے جیت جانے والے امیدواروں کے بھروسے کے حوالے سے ہیں ۔کیونکہ یہ قوی امکان موجود ہے کہ الیکشن کے بعد اس فیصلے سے ’حلال ہارس ٹریڈنگ‘ ہوگی کیونکہ ’جو امیدوار پی ٹی آئی ووٹرز کی حمایت سے جیت سکتا ہے وہ دباؤ، اثر و رسوخ یا ذاتی فائدے کے لیے انتخابات کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بن سکے گا۔‘ عدم اعتماد کے بعد پی ٹی آئی کے اکثر رہنما چند دن کا دباو اور نقصانات برداشت نہ کر پائے۔۔۔تو یہ کیسے گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ وہ جیتنے کی صورت میں بعد میں پڑنے والے دباو کو برداشت کر پائیں گے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کو ایک مشکل یہ بھی درپیش ہے کہ ان جیتنے والے امیدواروں پر قانونی طور کوئی قدغن نہیں ۔آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا کیس جس کی روح رواں خود پی ٹی آئی تھی ۔یہ کیس اب بہت جلد ان کے گلے پڑتا محسوس ہو رہا ہے۔کیونکہ آزاد جیتنے کے بعد امیدوار وقتی پی ٹی آئی میں شامل ہو بھی جائے تو بھی فلور کراسنگ کی صورت میں ان پر کوئی بھی قدغن نہیں ۔اس بات کا بھی قومی امکان ہے کہ مستقبل میں ہونیوالی اہم قانونی سازی اور حکومت سازی میں یہی آزاد امیدوار قلیدی کردار ادا کرے۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آئندہ الیکشن کے بعد بھی عرصہ تک مول بھاو ہوتا رہا گا۔اور جس طرف سے مناسب بولی لگائی جائے گی آزاد امیدواروں کا جھکاو کبھی ضمیر کے نام پر کبھی عوامی مفاد میں اس طرف جائے گا۔۔۔حالات یہاں تک آن پہنچے ہیں کہ بڑی پارٹیوں سمیت نومولود پارٹیاں ابھی سے ان آزاد امیدوواروں پر نظریں جمائیں ہوئے ہیں اور دعوے کر رہی ہیں کہ اکثریت آزاد امیدوران ان کے پلڑے میں ہی آکر گرے گے۔مزید دیکھیں اس ویڈیو میں 

مزیدخبریں