(فرخ احمد)معروف صحافی اور سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری نے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پریس کانفرنس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے آج دو ٹوک الفاظ میں سب کچھ کہہ دیا ہے، لیکن انہوں نے اس پارٹی یا گروہ کو نام نہیں لیا جبکہ ان کا نام بھی لے لیا جانا چاہیے تھا،جس کو آپ انتشاری مافیا کہتے ہیں ڈیجیٹل دہشت گردی کہہ رہے ہیں اس کا نام لیں نا جی، کس کو نہیں معلوم یہ کون ہیں اور یہ کون کر رہا ہے۔ ایسے افراد جو سٹیٹ پر حملہ آور ہوں سٹیٹ کی رٹ کو نہ مانیں اس کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس نے ایک ریڈ لائن بھی ڈرا کر دی ہے اور آخری وارننگ بھی ، آخری وارننگ یہ ہے کہ یا تو سدھر جاو ٔیا کہیں اور جا کر بسیرا کر لو یہاں رہ کر آپ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔سینئر صحافی نے چند دن پہلے کی ہائی لیول میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ کسی بھی انتشاری گروہ کو جو کہ پاکستان کی اساس سالمیت اور اداروں کے خلاف کام کرے اور غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں انہیں کسی قسم کی معافی نہیں ملے گی ۔
ڈیجیٹل دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ یہ غیر ملکی ایجنڈے کے تحت ریاستی اداروں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں جو کہ بیرونی فنڈنگ سے جاری ہے، انہوں نے ایک غیر ملکی ٹرانزیکشن کا حوالہ بھی دیا جس میں پچاس ہزار ڈالر کی کثیر رقم پروپیگنڈہ کیلئے وصول کی گئی ہے۔9مئی کے دہشت گردی کے واقعات کاذکر کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ 9مئی کی تو ویڈیوز موجود ہیں جس میں زمان پارک کی میٹنگز اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کی پلاننگ اور ترغیب دی جارہی ہے،معروف صحافی نے خان صاحب سے سوال کیا کہ اور دہشت گردی کیا ہوتی ہے؟
بانی پی ٹی آئی نےکہا کہ میں نے کہا تھا اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو جی ایچ کیو کے سامنے پُرامن احتجاج کریں گے لیکن میں نے کبھی کسی کو توڑ پھوڑ اور پُرتشدد مظاہروں کی اجازت نہیں دی،بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ مجھے لگتا ہے 9 مئی مقدمات میں مجھے ملٹری جیل بھیجا جائے گا، ان کا پلان ہے کہ مجھے بھی نو مئی کے مقدمات میں ملٹری جیل میں ڈالیں اور ملٹری کورٹ لے کر جائیں۔ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ اداروں پر حملہ آور ہونا کہاں کا پر امن احتجاج ہے ، تما م سی سی ٹی وی فوٹیجز اور آپکی پارٹی کے منحرف لیڈران کی پریس کانفرنسز اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ کی پارٹی توڑ پھوڑ اور ریاست کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے ارکان اسمبلی کو دباؤ میں لا کر وفاداریاں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایم این ایز کی خریداری کیلئے بڑی بڑی آفرز ہو رہی ہیں۔سلیم بخاری کا کہنا تھا بتائیں کون کروارہا ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپکا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے تو اسٹیبلشمنٹ کو اس کی ضرورت نہیں ، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی تشکیل بھی تو اسی طرح ہوئی تھی۔
آئی پی پیز معاہدوں میں کرپشن کو معروف صحافی نے حکومت کی جانب سے بھتہ خوری قرار دیا اور اسے ایک مجرمانہ فعل قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ اس پور ی لوٹ مار میں حکومت سب سے بڑی چور ہےکیوں کہ52 فیصد آئی پی پیز تو حکومت کے اپنے ہیں وہ عوام کےریلیف کیلئے کیوں کچھ نہیں کرتی، انہوں نے اس سلسلے میں سابقہ نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز کی کوششوں بھی سراہا کہ مہنگائی میں پسی عوام کیلئے وہ آواز بلند کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کو منافع اور کیپسٹی چارجز کی ڈالر میں ادائیگی کے پس پردہ حقائق قوم کے سامنے آنے ضروری ہیں تاکہ ذمہ دار عناصر کا احتساب یقینی بنایا جا سکے۔
سلیم بخاری نے کہاکہ معتدد آئی پی پیز کو 350روپے فی یونٹ سے 750روپے فی یونٹ ادائیگی کس قانون کے تحت کی جا رہی ہے۔ یہ کاروبار نہیں منافع خوری اور ڈکیتی ہے۔ عوام کو بتایا جائے کہ مختلف آئی پی پیز سے کروڑوں کی بجلی اربوں روپے میں کیوں خریدی جارہی ہے اور انھیں ایک یونٹ کی پیداوار کے بغیر کھربوں روپے کی ادائیگی کیوں کی جارہی ہے؟ آئی پی پیز کو بغیر بجلی پیدا کئے کپیسٹی چارجز کی مد میں ہوشربا ادائیگیاں کیوں اور کس کے اشارے پر کی جارہی ہیں۔ اگر آئی پی پیز سے معاہدے شفاف اور ملک وقوم کے مفاد میں ہیں تو انھیں پوشیدہ کیوں رکھا جارہا ہے۔ آئی پی پیزاپنی لاگت سے سینکڑوں گنا منافع کما چکے ہیں اوران کے مالکان اپنے سہولت کاروں کو بھی اربوں روپے دے چکے ہیں اس لئے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے تاکہ کھربوں روپے بچ سکیں اور تنخواہ داروں پر ٹیکس اور عوام کے مصائب میں کچھ کمی لائی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدوں کا تقابل اسی عرصے کے دوران دیگرممالک میں لگنے والے آئی پی پیز سے کرکے یہ بات باآسانی پتہ لگائی جاسکتی ہے کہ ان معاہدوں میں کتنی زبردست کرپشن ہوئی ہے۔ اگرعوام نے متحد ہوکراپنا یہ مسئلہ حل نہ کیا توانکے پاس کوئی آپشن نہیں بچے گا اور ملک بھی دیوالیہ ہوجائے گا۔