خیبر پختونخوا میں ایمرجنسی کا نفاذ؟فیصلہ ہوگیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)فوج کا کھلم کھلا اعلان،ڈیجیٹل دہشتگردی،حتمی فیصلہ،9 مئی کی معافی نہیں،عدلیہ کو اشارہ،آپریشن ’عزم استحکام‘کیا خیبر پختونخوا میں ایمرجنسی لگنے جارہی ہے؟
صوبہ خیبر پختونخوا میں ایمرجنسی لگنے جارہی ہے؟یہ سوال دن بدن سر اُٹھا رہا ہے ۔خیبر پختونخوا میں دہشتگردی زور پکڑ رہی ہے۔اور ابھی حال ہی میں بنوں میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں دہشتگردوں کیخلاف تاجر برادری کے امن مارچ کو بد امنی میں بدلنے میں سیاسی قوتوں نے کردار ادا کیا ۔حکومت کے بقول معاملہ کچھ یوں پیش آیا کہ 15 جولائی کو بنوں چھاؤنی میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا، جہاں ایک سپاہی نے جان قربان کرکے ہزاروں افراد کو بچایا، تاجروں نے اجازت لےکر دہشت گردی کے خلاف امن مارچ کرنا چاہا، سیاسی قوتوں نے امن مارچ کو خراب کرنے کی کوشش کی، سیاسی عناصر نے 15جولائی کو حملے کی جگہ جا کر احتجاج کرنےکی کوشش کی۔ جہاں حملہ ہوا تھا اسی دیوار پر جا کر تشدد کی کارروائیوں کی کوشش کی۔جس میں بہت سارے مسلح افراد شامل تھے اُنہوں نے وہاں فائرنگ کی جس سےلوگ زخمی ہوئے، ہجوم میں شامل عناصر کی فائرنگ سے ایک شخص شہید اور 22 زخمی ہوئے۔اب حکومت اِس معاملے کو تحریک انصاف سے جوڑ رہی ہے ۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں صورتحال تشویشناک ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آج ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی بنوں واقعے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بنوں امن مارچ میں کچھ لوگوں نے ریاست اور فوج کے خلاف نعرے بازی کی اور پتھراؤ کیا، واقعے سے ایک کلومیٹر دور بھی کچھ لوگوں نے فائرنگ کی، بنوں واقعے پر فوج کا رسپانس ایس او پی اور آرڈر کے مطابق تھا۔
اب خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اِس لئے حکومتی اور طاقتور حلقوں میں یہ تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے کہ اِس وجہ سے خیبرپختونخوا کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔اور ظاہر ہے حکومت تو بنوں واقعہ پر تحریک انصاف پر ذمہ داری ڈال رہی ہے۔اور یہ بات حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اِس وقت انتشار کی سیاست کر رہی ہے۔اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ تو اِس شک کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ جرمنی میں پاکستانی کونسل خانے میں بھی سیاسی عنصر کارفرما ہوسکتے ہیں ۔
اب یہ بات تو صاف ہے کہ تحریک انصاف نے ایسے کئی اقدامات اُٹھائے ہیں جن سے ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔آئی ایم ایف کو خط لکھ کر پاکستان کا معاہدہ منسوخ کروانے کی کوشش تحریک انصاف نے کی تو ایسے میں ممکن ہے کہ جرمنی میں سفارتکانے پر حملے میں کہیں نہ کہیں اِسی مخصوص جماعت کا ہاتھ شامل ہو۔بہرحال یہ بات طے ہے کہ پی ٹی آئی کے سیاسی کردار پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں ۔ایسے میں ممکن ہے ایک ایسی جماعت جس کی خیبر پختوںخوا میں حکومت ہے اور یہ وہ صوبہ ہے جو سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار ہے اور یہاں صوبائی حکومت کی رٹ نظر نہیں آتی تو ایسے میں اِس بات کے امکانات تو موجود ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ایمرجنسی نافذ ہوجائے ۔صوبے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے حوالے سے آئین کیا کہتا ہے ۔تو اس حوالے سے آئین کا آرٹیکل 232 دو صورتوں میں ایمرجنسی لگانے کے حوالے سے ہے۔ پہلی صورت جنگ یا بیرونی جارحیت اور دوسری صورت ایسا داخلی خلفشار جس پر قابو پانا صوبے کی اہلیت سے باہر ہو۔ اگر صوبے میں داخلی خلفشار کے باعث ایمرجنسی نافذ کی جائے گی تو اِس کے لیے صوبے کی اسمبلی ایک قرارداد منظور کرے گی۔ صدرِ مملکت بھی ایمرجنسی کا نفاذ کرسکتے ہیں۔ لیکن اِس صورت میں ایمرجنسی کے معاملے کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا جنہوں نے 10 روز کے اندر اس کی منظوری دینی ہوگی۔اس آرٹیکل کے تحت لگنے والی ایمرجنسی کے دوران صوبائی اسمبلی کام کرتی رہے گی اور پارلیمان کی جانب سے صوبے کے حوالے سے منظور کیے گئے قوانین کو دیگر صوبائی قوانین پر سبقت حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ صدرِ مملکت یا گورنر کے ذریعے وفاق کے عاملانہ اختیار کا اطلاق صوبے پر بھی ہوگا۔ لیکن ایمرجنسی کے دوران عدالتوں کے اختیار معمول کے مطابق رہیں گے۔ایمرجنسی کے اعلان کیے جانے کے 30 روز کے اندر اس معاملے کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ اِس ایمرجنسی کی معیاد 2 ماہ ہوگی اور مشترکہ اجلاس میں اس کی توسیع کی منظوری دی جاسکتی ہے۔
ضرورپڑھیں:وزیرداخلہ محسن نقوی کا دہشتگردوں کی دراندازی کی کوشش ناکام بنانےپر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
اگر یہ منظوری نہ دی گئی تو 2 ماہ بعد ایمرجنسی ختم ہوجائے گی۔اس آرٹیکل کے تحت لگنے والی ایمرجنسی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایمرجنسی کے دوران پارلیمان قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال تک کی توسیع کرسکتی ہے تاہم یہ توسیع ایمرجنسی ختم ہونے کے بعد کسی صورت بھی 6 ماہ سے زیادہ نہیں رہے گی۔آئین کا آرٹیکل 233 یہ وضاحت کرتا ہے کہ صدرِ مملکت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایمرجنسی کے اعلان کے ساتھ ہی کچھ بنیادی حقوق کو معطل کردیا جائے۔آئین کا آرٹیکل 234 صوبے میں آئینی مشینری کی ناکامی کی صورت میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار دیتا ہے۔ شاید یہی وہ آرٹیکل ہے جس کے بارے میں صوبوں کو خدشات ہوتے ہیں۔ یہ ایمرجنسی اس صورت میں لگتی ہے جب صدرِ مملکت کو صوبائی گورنر کی جانب سے یہ رپورٹ ملے کہ صوبائی حکومت اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی اور صدرِ مملکت اس رپورٹ سے مطمئن ہوجائے۔ایسی صورت میں پارلیمان کے دونوں ایوان ایمرجنسی لگانے کے مطالبے پر مبنی علیحدہ علیحدہ قراردادیں منظور کریں گے جس کے بعد صدرِ مملکت ایمرجنسی لگانے کے پابند ہوں گے۔ ایمرجنسی کے دوران عدالتوں کے اختیارات بحال رہیں گے۔
آرٹیکل 234 کے تحت ایمرجنسی کے اعلان کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ یہ ایمرجنسی صرف 2 ماہ کے لیے لگائی جاسکتی ہے لیکن پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اس میں مزید 2 ماہ کی توسیع کرسکتا ہے۔ مجموعی طور میں اس میں زیادہ سے زیادہ 6 ماہ کی توسیع کی جاسکتی ہے۔اس آرٹیکل کے تحت ایمرجنسی لگانے کے بعد یہ اعلان بھی کیا جاسکتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے اختیارات اب پارلیمان کے پاس ہوں گے یا اس کے ماتحت ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں اگر پارلیمان سیشن میں نہ ہو تو صدرِ مملکت پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظوری حاصل ہونے تک صوبائی مجموعی فنڈ سے اخراجات کی منظوری دے سکتا ہے۔آئین کا آرٹیکل 235 مالی ایمرجنسی سے متعلق ہے جس میں صدر اس وقت ایمرجنسی کا اعلان کرتا ہے جب وہ گورنر (یا گورنروں) کے ساتھ مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اب ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں جس سے پاکستان یا اس کے کسی حصے کے مالی استحکام، اقتصادی زندگی اور ساکھ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔اس قسم کی ایمرجنسی کے نافذ العمل ہونے کے بعد وفاق کا انتظامی اختیار کسی بھی صوبے کو مالی معاملات کے حوالے سے ہدایات دینے پر بھی ہوگا۔ ان ہدایات میں صوبے یا وفاق کے لیے کام کرنے والے کچھ یا تمام افراد کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کی ہدایت بھی شامل ہوسکتی ہے۔اِس قسم کی ایمرجنسی کے اعلان کو بھی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھنا ضروری ہے اور آرٹیکل 234 کے تحت لگنے والی ایمرجنسی کی طرح اس میں بھی 6 ماہ تک توسیع کی جاسکتی ہے۔