پچھلے دو روز سے ڈراما رائٹرخلیل الرحمان قمر سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنے ہوئے ہیں ۔ کہیں ان کے حوالے سے میمز بن رہی ہیں تو کہٰیں ان کے ساتھ ہونے والی واردات پر لوگ سوال اٹھا رہے ہیں ۔ اصل واقعہ کیا ہے ۔
ایک صف اول کے تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر خلیل الرحمان کا نام لئے بغیر ان کے کسی خاتون سے ملاقات کیلئے جانے اور اس کے بعد کے واقعات کی یہ سٹوری بریک کی تھی، اس انکشاف سے سب نے پہچان لیا کہ کس کے ساتھ کیا ہوا، پھر پاکستانی سوشل میڈیا میں ہر طرف بس اس ہی واقعہ کا چرچا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ کی سوشل پلیٹ فارمز پر تشہیر کے بعد خلیل الرحمان قمر نے ایف آئی آر درج کروانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے اور 21 جولائی کو سوشل میڈیا پر ایک ایف آئی آر کا عکس سامنے آیا جس سے تصدیق ہوئی کہ خلیل الرحمان قمر کے ساتھ "واردات" ہوگئی ہے ۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق خلیل الرحمان قمر نے بتایا کہ "رات تقریبا 12 بجے نامعلوم نمبر سے کالز آ رہی تھیں جب میں نے کال وصول کی تو اس نے اپنا نام آمنہ عروج بتایا اور کہنے لگی کہ میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں انگلینڈ سے آئی ہوں اور آپکے ساتھ ڈراما بنا نا ہے ۔ اور مجھے بحریہ ٹاون کی لوکیشن سینڈ کردی ۔ میں لوکیشن پر 4.40 منٹ پر پہنچا تو آمنہ عروج نے مجھے کمرے میں بیٹھایا۔ اسی دوران مین دروازے پر دستک ہوئی ۔آمنہ عروج نے کہا کوئی ڈیلیوری دینے آیا ہے ۔ اور دروازہ کھلتے ہی تقریبا 7 کے قریب لوگ جدید اسلحہ سے لیس اندر آگئے ۔ جنہوں نے میرے ہاتھ کھڑے کروا کر تلاشی لینی شروع کردی ۔ میرا پرس لے لیا جس میں 6000 روپے ۔ اے ٹی ایم ،شناختی کارڈ، موبائل آئی فون ،اور گاڑی کی رجسٹریشن کاپی گن پوائنٹ پر چھین لی ۔ میرے موبائل کا پاس ورڈ زبردستی پوچھا اور فون کا ڈیٹااپنے موبائل میں ٹرانسفر کرلیا ۔ اور مجھے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسی دوران ایک اٹھا, مجھ سے اے ٹی ایم کا پاس ورڈ زبردستی پوچھا اور اے ٹی ایم مشین سے ایک لاکھ سڑسٹھ ہزار روپے نکلوا لیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تمہٰیں مارنے کا حکم ہے ساتھ ہی ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کیا۔ میں نے کہا میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں ۔ مجھے فلیٹ سے نیچے لے آئے ۔ نیچے 5 مزید افراد موجود تھے ۔جو مسلح تھے ۔ انہوں نے مجھے زبردستی گاڑی میں بیٹھایا اور میری آنکھوں پر پٹی باندھی کسی نامعلوم جگہ پر چل دیے ۔رقم کا مطالبہ کرتے رہے ۔ مجھے ایک نامعلوم ویران جگہ پر گاڑی سے اتارا جہاں اردگرد مسلح افراد تھے سڑک کنارے بیٹھادیا ۔ تقریبا دو گاڑیوں میں کچھ لوگ آئے اورپھر انکھوں پر پٹی باندھ کر کسی نامعلوم جگہ پر لے گئے ۔ جو مسلح شخص گاڑی چلا رہا تھا اس نے میری ایک لاکھ روپے کی گھڑی اتروا لی ۔ گاڑی سے اتار کر ذہنی و جسمانی تشدد کرتے رہے ۔ مجھے کہا اب کلمہ پڑھ لو اور پاوں کے پاس فائر کیا جو خوش قسمتی سے میں بچ گیا مجھ سے رقم کا مطالبہ کرتے رہے ۔ میں نے کہا مجھے موبائل دیں کسی دوست یا رشتہ دار سے بندوبست کرتا ہوں ۔ انہوں نے جب موبائل دیا تو حفیظ نامی دوست کو کال کی کہ مجھے دس لاکھ روپے چاہیں ۔جس نے پندرہ منٹ بعد بتایا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں ۔ یہ سن کر مجھے مارنے لگے پھر دوبارہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر گاڑی لے کر نکل پڑی ۔ دس پندرہ منٹ بعد کسی ویران جگہ پر مجھے اتار کر دھکا دے دیا۔اور خود فرار ہوگئے ۔ ان تمام اشخاص کو میں سامنے آنے پر پہچان سکتا ہوں ۔میرے ساتھ سخت زیادتی ہوئی ہے ۔ ان افراد کو گرفتار کرکے میرا سامان واپس دلوایا جائے ۔"
یہ خلیل الرحمان کی ایف آئی آر کا متن ہے ۔ یہ ایف آئی آر سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر سوالات اور تنقید کا طوفان کھڑا ہوگیا۔ خلیل الرحمان قمر کی کہانی پر سوال جنم لینے لگے ۔ سب سے زیادہ سوال جو سوشل میڈیا صارفین نے اٹھایا کہ خلیل الرحمٰن قمر آدھی رات کو خاتون کے گھر کیوں گئے ۔
رات بارہ بجے خلیل الرحمٰن کو فون آیا تو وہ لیک سٹی سے بحریہ ٹاون تقریبا پونے پانچ پہنچے آخر اتنی دیر تک کیا کرتے رہے ؟
کسی نے تو یہ بھی کہا کہ کیا آدھی رات کو غیر محرم خاتون سے ملنا درست ہے ؟
سوشل میڈیا پر لوگ تبصرے اور تجزیے کے ساتھ ساتھ خلیل الرحمان کے متعلق مزاحیہ پوسٹس بھی کرنے لگے ۔
ایک صارف نے لکھا," خلیل الرحمٰن قمر خاتون کو "طاغوت" کا مطلب سمجھانے گئے تھے ۔ "
ایک نے خلیل الرحمٰن قمر کے ڈرامے "میرے پاس تم ہو" کے ڈائیلاگ , "دو ٹکے کی عورت" کو سامنے رکھتے ہوئے لکھا. "دوٹکے کا آدمی" ایک عورت کے لیے ڈھائی لاکھ لٹا بیٹھا۔
ایک صارف نے لکھا , "ایک وہ فین ۔۔دوسری لندن سے آئی ۔۔۔وڈا لکھاری دوڑا دوڑا گیا تے لٹیا گیا ۔۔باقی تسی آپ سمجھدار ہو"
اسی دوران خلیل الرحمٰن قمر کا ایک یوٹیوب چینل کو دیا پرانا انٹرویو کلپ بھی وائرل ہوا۔ جس میں وہ ایک خاتون سے کہہ رہے تھے کہ "عورت مرد کی برابری نہیں کرسکتی" ۔ انہوں نے چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ " میں نے کبھی نہیں سنا کہ چار پانچ عورتوں نے مل کر مرد پر تشدد کیا ہو یا اغوا کیا ہو۔" خاتون کہتی ہے کیا عورت اغوا کرے ۔تو خلیل الرحمان قمر جارحانہ انداز میں کہتے ہیں ۔ "ہاں عورت برابری کرنا چاہتی ہے تو مرد کو اغوا کرے ۔اسے لوٹے ۔ "
اس کو بھی فیس بک پر پوسٹ کرتے ہوئے صارفین نے لکھا کہ ایک خاتون نے خلیل الرحمٰن کی خواہش کا احترام کیا ہے ۔
میمز بنانے والوں کے تو جو من میں آئی انہوں نے کہہ ڈالا لیکن حقائق کچھ اور ہی ہیں ۔
بڑھتی تنقید کا رخ اس وقت ایک بار پھر مڑ گیا جب خلیل الرحمان قمر نےایک پریس کانفرنس کی ۔ جس میں انہوں نے ڈرامائی انداز میں ساری کہانی بیان کی ۔ اس پریس کانفرنس کا آغاز غیر روایتی طور پر پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی عمران کشور نے کیا اور انہوں نے پریس کانفرنس میں کہیں" حقائق" بھی بتائے تو کہیں خلیل الرحمٰن قمر کو بچانے کی کوشش بھی کی ۔
ڈی آئی جی عمران کشور کا کہنا تھا کہ 15جولائی کو واقعہ پیش آیا ، آمنہ عروج نے کہا کہ ہم آپ سے ایک ڈراما لکھوانا چاہ رہے ہیں ۔ہماری کمپنی بنی ہوئی ہے ، یہاں بحریہ ٹاون میں آفس بھی ہے ۔ ایک دو دن بات ہوئی ، 15 تاریخ کی رات کو خلیل الرحمان میٹنگ کے لیے وہاں گئے ۔ دو ملزمان مزید آئے ان کے پاس اسلحہ تھا ۔ انہوں نے خلیل الرحمٰن قمر سے کہا کہ وہ انہیں اغوا کر لیں گے ابھی ابھی ایک کروڑ روپیہ منگوائیں ۔
ڈی آئی جی نے بتایا کہ ان کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو انہوں نے موبائل گھڑی اور پیسے چھین لیے ۔ اے ٹی ایم سے دو لاکھ ستاسی ہزار روپے بھی نکلوائے ۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ خلیل الرحمٰن قمر پر تشدد کیااور آنکھوں پر پٹی بھی باندھی ہوئی تھی ۔15 جولائی کا واقعہ تھا ۔ 19 کو رپورٹ کیا 20 جولائی کو ایف آئی آر درج ہوئی ۔ فیصل شریف ڈی ایس پی ،سی آئی اے ،عمران یوسف انسپکٹر، تھے جنہوں نے اس کیس کو حل کیا ہے ۔
ڈی آئی جی نے بتایا کہ ملزمان نے ڈیٹا ٹرانسفر کر لیا تھا ہمارے پاس لڑکی کی کوئی معلومات نہیں تھی ۔ ہم نے تمام ڈیٹا ریکور کرنے کے بعد لڑکی کا ڈیٹا دیکھا اور فون نمبر سے اسے ٹریس کیا اور پھر دیگر ملزمان کو گرفتار کیا اب تک ہم بارہ ملزمان کو گرفتار کرچکے ہیں ۔جن میں دس مر د اور دو خواتین ہیں.
دو اور وکٹم بھی سامنے آئے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں وہ بھی اگر پہلے شکایت نہیں درج کروا سکے تو اب درج کروائیں تاکہ ان کی بھی شکایت کا ازالہ کریں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان سے کلاشنکوف ، ایس ایم جیز ، پسٹل،چاقو اور کلہاڑا جیسی چیزیں اور تین وائرلس سیٹ جو پولیس کےاستعمال میں ہونے چاہیں وہ بھی ان کے پاس سے ملے ۔منظم گینگ سے گاڑیاں بھی برآمد کر لی ہیں ۔
صحافی کےسوال پر عمران کشور نے بتایا کہ تین ملزمان کا سابقہ ریکارڈ موجود ہے ۔لوکل بدمعاشی ، فائرنگ جیسے مقدمات ہیں ۔ایک ملزم 302 میں بھی نامزد ہے ۔
صحافی نےپوچھا کہ واقعہ 15 جولائی کو پیش آیا رپورٹ 20 کو کیوں ہوا۔ عمران کشور نے بتایا کہ ہمیں جیسے ہی رپورٹ ہوا ہم نے سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے کارروائی کا آغاز کردیا. تاخیر کی وجہ خلیل الرحمان بتائیں گے, ساتھ ہی بات کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت ٹراما میں تھے ۔
گاڑیوں کے حوالے سے بتایا کہ ان کا ابھی فرانزک ہورہا ہے۔ مگر لگ رہا ہے کہ ٹیمپرڈ گاڑیاں استعمال ہوئی ہیں ۔
صحافی نے رات ساڑھے تین بجے خاتون کے گھر جانے پر سوال کیا تو عمران کشور نے اس سوال کو غیر متعلقہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کو ڈرامے کا ایگریمنٹ کرنے کے لیے بلایا تھا۔یہ چونکہ رائٹر ہیں اور رات کو اپنا لکھنے کا کام کرتے ہیں اور پوری رات لکھتے ہیں ۔
صحافی نے سوال کیا کہ ڈکیتی کے معاملے میں پولیس اکثر پوچھتی ہے کہ آپ رات کو اس پہر کیوں گئے ۔ کیا پولیس نے خلیل الرحمان قمر سے بھی پوچھا کہ وہ رات کو خاتون سے ملنےکیوں گئے ۔
عمران کشور نے سوال کا جواب گول کرتے ہوئے بات کا رخ تبدیل کیا اور کہا کہ خاتون نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ان سے ڈرامے کا ایگریمنٹ کرنا چاہتے تھے ۔ وہ ہم بیان ریکارڈ کرکے کیس فائل کرچکے ہیں ۔
ضرورپڑھیں:رائٹر خلیل الرحمان قمر رات کی تاریکی میں لڑکی سے کیوں ملنے گئے؟تہلکہ خیز انکشاف
خلیل الرحمان قمرنے یہ بھی دعویٰ کیا، "میں پانچ سال سے بیمار ہوں مجھے ڈاکٹر نے دھوپ میں جانے سے منع کیاہوا ہے ۔" انہوں نے مزید کہا، اگر نہ بھی منع کیا ہوتا تو ہم رات کو ملاقاتیں کرتے ہیں اس میں جینڈر کی تمیز نہیں کی جاتی کہ یہ خاتون ہے یہ مرد ہے ۔ جب ہم مردوں سے رات کو ملاقات کرتے ہیں تب تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔( یاد رہے خلیل الرحمٰن قمر غیر محرم عورت سے ملاقات پر جارحانہ رویہ بھی رکھتے ہیں ۔اور اب ان کا یہ بیان ہے کہ ہم رات کو ملاقاتیں کرتے ہیں )
خلیل الرحٰمن نے کہا یہ تخریب کاری کی گئی ہے ۔مجھے پندرہ دنوں سے اس پراجیکٹ کے لیے کہا جا رہا تھا۔ میں جب صبح کی پو پھٹی۔4.40 پر تو میں تب پہنچا۔میں گھر میں داخل ہوا ابھی میں بیٹھا ہی تھا کہ مسلح ملزمان نے اگلے پندرہ منٹ کے اندر مجھ سے پرس ، موبائل، گھڑی ، گاڑی کی چابی چھین لی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک نے کہا جاو پیسے نکلوا کر آو۔ اس نے دو لاکھ ستاسی ہزار روپیہ نکلوایا ۔بینک کا میسج آتا ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کیا۔ یہ کہا ہمیں تمہیں پار کردینے کا حکم ہے ۔
یہاں پر خلیل الرحمان قمر میں "ہیرو " کا کردار آجاتا ہے ۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے ملزمان سے کہا مجھے پار کرکے دکھاو پھر پیسے کیا کرنے ہیں تم نے ۔
پھر مجھے ڈرایا گیا کہ تو تو اینا وڈا آدمی ہے میرا دل نہیں کر رہیا کہ تینوں جانوں مار دیاں
انہوں نے کہا کہ سب ڈرامے بازی ہو رہی ہے ایک آدمی کا نام انہوں نے ہیکر رکھا ہوا ہے ۔جو موبائل دیکھ رہا تھا اور مجھ سے کہتا ہے کہ پیسے دے دو تے بچے گا۔ جان بخش دیں گے ۔
میں نے کہا پیسے میرے پاس نہیں ہیں ۔ اسی دوران ملزم نے کہا ایس پی کا فون آیا ہے ۔ تھوڑی دیر بعد آیا اور کہا حکم آیا ہے کہ اسے پار کردو۔۔ ملزم نے پوچھا کہ اوئے تینوں موت نالوں ڈر نہیں لگدا ۔ میں نے کہا لگتا ہے اللہ معاف کرے رب کے بعد موت پر یقین ہے میرا۔ میں تمہیں پیسے نہیں دے سکتا
خلیل الرحمٰن قمر نے کہا میں نے ان کو آفر دی کہ ایک صورت ہے کہ میں اپنے کسی دوست کو فون کرتا ہوں اور ساری صورت حال بتا کر پیسے منگواتا ہوں ۔ جس پر انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق نہیں بتانے ۔ میں نے دوست کو فون کیا اس نے انکار کردیا ۔ انہوں نے کہا دس لاکھ کیا کرنا ہے ۔ بیس لاکھ تو تمہاری ریکی میں لگ گیا ہے ۔ ایک سال سے تمہاری ریکی کررہے ہیں ۔میں بے بس تھا ۔ بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ بار بار مجھ پر تشدد کررہے تھے ۔ بار بار کہہ رہے تھے کہ تمہیں پار کردینے کا حکم ہے ۔ میں نے کہا پار کردینے کا حکم ہے تو مجھ سے پیسے کیوں مانگ رہے ۔انہوں نے ڈرایا کہ اس کو آگے اتھارٹی کے پاس پیش کردو ۔ میں نے کہا فورا پیش کردو( خلیل الرحمٰن قمر نے ڈرامائی انداز میں خود کو ہیرو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے )
خلیل الرحمٰن نے بتایا کہ ساڑھے چھ بجے مجھے گاڑی میں بیٹھایا اور پٹی باندھی لے گئے ۔بہت تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہے ہیں پھر ایک جگہ پہنچے ہیں اور وہاں گاڑیاں روکی ۔ نہر کے پاس تھے۔ پھر دوسری طرف گئے ۔ واپس آئے دوبارہ گاڑی میں بیٹھا کر ایک نامعلوم جگہ پر لے گئے اور وہاں انہوں نے مجھ پر ذہنی و جسمانی تشدد کیا ۔اور کہا اسے پار کرو۔ مجھے کہا کلمہ پڑھ لو
یہاں پھر خلیل الرحمن قمر نے ہیرو انداز میں کہا ۔ میں نے پڑھ لیا کلمہ
انہوں نے رائفل لوڈ کی اور ساتھ آٹھ فائر کیے جو میرے بائیں طرف زمین پر لگے ۔ ایک منٹ کی خاموشی رہی پھر انہوں نے کہا بیٹھ جاو گاڑی میں ۔ اس وقت کوئی گیارہ بجے کا وقت ہوچکا تھا ۔ پھر دس گیارہ منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد انہوں نے کہا مار کر نہر میں پھینکو اسے
دو منٹ خاموشی چھائی رہی ۔ پھر آگے نکلے ہیں ۔پھر دس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد کہا یہاں کوئی نہیں یہاں مار کر پھینک دو ۔ پھر خاموشی چھائی رہی ۔ پھر تھوڑی دیر بعد گاڑی چلی اور پھر کچی سڑک پر چلتی رہی اس کے بعد مجھے احساس ہوا اب پکی سڑک آگئی ہے ۔ ٹریفک کا شور بھی تھا ۔
پھر مجھے میری گاڑی میں شفٹ کردیا ۔ مجھے پر جتنا بھی تشدد ہوا میرے بائیں جانب ہوا۔پھر پندرہ منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد ایک جگہ رکے ۔انہوں نے کہا سر یہ آپ کا موبائل ، یہ آپ کا پرس ۔یہ آپ کی املاک ، آپ چلے جائیں ۔ آپ کے ایک کارڈ میں پیسے ہوں گے آپ پیٹرول ڈلوا لیجیے گا۔ ( حیرت ہے ڈاکو ڈکیتی کرنے آئے ، موبائل ، گاڑی ، پرس ، تک دے گئے ) دس کلومیٹر کے بعد میں نے کسی سے پوچھا یہ سڑک کہاں جا رہی ہے انہوں نے کہا لاہور جا رہی ہے ۔ میں نے پوچھا لاہور کتنی دور ہے ۔ انہوں نے کہا 35 کلومیٹر
میں نے پوچھا موٹروے آئے گی ۔ انہوں نے کہا آدھے کلومیٹر بعد موٹروے آئے گی ۔ دو ہزار کا پیٹرول ڈالوایا اور شالیمار انٹر چینج سے میں موٹر وے پر چڑھا ۔راستے میں رحمان گارڈن جاتا ہے اور میں اور پونے ایک بجے گھر پہنچ گیا ۔
صحافی نے پوچھا کہ مرکزی ملزمہ نے بیان میں کہا ہے کہ آپ اس سے چند دن سے رابطے میں تھے میسجنگ ہو رہی تھی ۔ تصاویر بھی بھیجی جا رہی تھیں ۔ خلیل الرحمان قمرنے کہا کہ پندرہ دن سے ہو رہی تھیں ۔
صحافی ۔ خوش میسجز بھی تھے ۔
خلیل الرحمٰن قمر کوئی خوش میسجز نہیں تھے
صحافی :آپ نے تصاویر دیکھنے کے بعد کہا اب جا نا ہے
خلیل الرحمان قمر : ہمارے شوبز مٰیں لڑکیا ں کس طرح کے کپڑے پہنتی ہیں ۔کس قسم کی ان کی گفتگو ہوتی ہے وہ میں 27 سال سے دیکھ رہا ہوں یہ سب میرے لیے نیا نہیں ہے
عمران کشور نے کہا کہ ملزمان شناخت پریڈ کے لیے بند ہیں ۔ شناخت پریڈ کے بعد جب ریمانڈ پر آئیں گے پھر بیان آئیں گے
خلیل الرحمان قمر نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ مجھے علم میں نہیں تھا کہ وہ اکیلی ہے گھر میں ۔
صحافی نے سوال کیا کہ آ پ کا ماضی میں بھی جب کوئی تنازعہ سامنے آیا تو وجہ خاتون ہی رہی ۔ جیسے ماوری ۔ اب بھی خاتون آخر وجہ کیا ہے ۔
یہیں پر خلیل الرحمان قمر آئیں بائیں شائیں کرنے لگے ۔۔ ان سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ تو یہ دیکھتے ہوئے عمران کشور نے پریس کانفرنس ختم کردی ۔
ایف آئی آر کے متن اور خلیل الرحمٰن قمر کی باتوں بھی تضاد نظر آ رہا ہے جو کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔
ایف آئی آر میں لکھا کہ رات بارہ بجے نامعلوم نمبر سے کال آئی جس نے بتایا آپ کی فین ہوں جبکہ خلیل الرحمٰن قمر اور ملزمہ کے بیان کے مطابق جس کی تصدیق پولیس نے بھی کی کہ ان کا رابطہ تقریبا پندرہ دن سے تھا ۔
اگر رابطہ پندرہ دن سے تھا تو پھر نامعلوم نمبر سے کال کا کیوں لکھا گیا اور کیوں ظاہر کیا جیسے فین سے فوری بلوایا ہے ۔
12 بجے کالز آئیں تو پونے پانچ بجے کیوں پہنچے ؟؟ اگر ڈراما پراجیکٹ پر ایگریمنٹ ہی کرنا تھا اور خلیل الرحمٰن قمر کے مطابق خاتون نے انہیں بتایا کہ بحریہ ٹاون میں ملزمہ نے اپنی کمپنی بنا رکھی تھی ۔جہاں دفتر تھا ۔ تو کیا دفتر پونے پانچ بجے ایگرمنٹ کے لیے کھلا ہوتا ہے ؟
ایف آئی آر میں لکھا ہوا ہے کہ اے ٹی ایم سے 2 لاکھ ستاسٹھ ہزار نکلوائے جبکہ عمران کشور نے دو لاکھ ستاسی ہزار اور خلیل الرحمٰن قمر نے دو لاکھ ستاسی ہزار ہی بتائے ۔ ایف آئی آر میں رقم درست نہیں یا پریس کانفرنس میں بڑھا چڑھا کر بتانے کی کوشش کی گئی ؟
عمران کشور نے میڈیا کو بتایا کہ 15 جولائی کو واقعہ پیش آیا بیس کو رپورٹ اس لیے ہوا کہ خلیل الرحمٰن قمر ٹراما میں تھے ۔ جبکہ خلیل الرحمٰن قمر اپنی پریس کانفرنس میں تو کہہ رہے ہیں کہ ملزمان نے کہا ان کو پار کرنے کا حکم ہے تو انہوں نے کہا کردو ۔ ملزمان نے کہا کلمہ پڑھ لو تو وہ جارحانہ انداز میں بتاتے ہیں میں نے کہا پڑھ لیا ۔ مار دو پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔۔ کیا واقعی ٹراما میں تھے یا خلیل الرحمٰن قمر کسی کو بچانے کی کوشش کررہے تھے ۔
مدعی خلیل الرحمٰن قمر نے ایف آئی آر میں کسی کو ملزم کیوں نہیں ٹھہرایا جبکہ وہ پریس کانفرنس میں کئی نام بھی لے رہے ہیں ؟
ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ دو مزید گاڑیا ں آگئیں جبکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تین گاڑیاں میرے آگے تھیں ایک میں وہ خود موجود تھے اتنا تضاد کیوں ؟
ایف آئی آر اور خلیل الرحمان قمر کے مطابق ملزمان دس لاکھ پر راضی نہیں تھے وہ ایک کروڑ کا مطالبہ کررہے تھے ۔ پھر خلیل الرحمٰن قمر نے پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا کہ ملزمان نے ان کو کہا یہ لیں موبائل ، پرس ، اے ٹی ایم کارڈ ، اور گاڑی ،آپ چلے جائیں
سوال یہ ہے کہ ملزمان تو لوٹنے آئے تھے وہ گاڑی ، موبائل ، اے ٹی ایم اور پیٹرول کے پیسے وغیرہ کیوں چھوڑ گئے ؟آخر ماجرہ کیا ہے ؟
ایف آئی آر کے متن کے مطابق خلیل الرحمٰن قمر کو گاڑی دے دھکا دے کر فرار ہوئے جبکہ خلیل الرحمٰن قمر کے مطابق انہیں ان کی گاڑی ، موبائل ، پرس وغیرہ مل گیا تھا ۔ایف آئی آر بھی 5 دن کے بعد درج ہوئی تو پھر کیوں یہ سب چیزیں واپس مانگنے کی درخواست کی گئی ؟؟
ان سوالات کے جواب کون دے گا۔ لگتا ہے دال میں کچھ کالا ہے ۔جو چھپایا جا رہا ہے ۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر