(24 نیوز ) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کا کہنا ہے کہ یہ پولیس سٹیٹ بن گئی ہے جو دل چاہتا ہے کر لیتے ہیں،پولیس سٹیٹ یہی ہوتی ہے کہ کوئی کام قانون قاعدے کے تحت نہ کریں، کیوں نا میں پولیس اور ایف آئی حکام کیخلاف چوری کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دوں ؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)سیکرٹریٹ پر چھاپے کے دوران گرفتار کارکنوں، خواتین اور ملازمین کی بازیابی کیلئے پی ٹی آئی رہنمامیمونہ کمال کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر سماعت ہوئی،درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی ،سماعت کے دوران ڈی آئی جی آپریشنز اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائمز اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ درخواست گزار میمونہ کمال کے وکیل سید علی بخاری بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔
سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ درخواست آئی ہے کہ پولیس اور ایف آئی اے نے بنا مقدمہ درج کیے کارکنوں کو اغواء کیا ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا ہے،مقدمہ میں نامزد لوگ گرفتار ہیں باقی سب کو ذاتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا،اِس مقدمہ میں 10 مرد اور2خواتین شامل ہیں، 6 خواتین میں سے کوئی بھی گرفتار نہیں ہے، سب کو ذاتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا، وکیل درخواست گزار علی بخاری نے کہا کہ کُل 10 خواتین کے نام لکھے ہیں جنہیں اٹھایا گیا تھا،2 خواتین پر مقدمہ کا کہا جا رہا ہے جبکہ 2 خواتین سے متعلق ابھی پتہ چلا ہے کہ وہ واپس آ گئی ہیں ، چیف جسٹس نے کہا پھر تو خواتین والا معاملہ کلیئر ہو گیا ۔
جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حبسِ بےجا کی درخواست غیرموثر ہو گئی نمٹا دی جائے، چیف جسٹس عامر فاروق نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نہیں، یہ درخواست ابھی غیرمؤثر نہیں ہوئی، کیا گرفتار کیے گئے تمام لوگوں کی گرفتاری ڈالی گئی؟10 گھنٹے تک لوگوں کو وہاں کیسے رکھا گیا؟میرے خیال سے کسی کو10 گھنٹے حراست میں رکھ کر مقدمہ درج نہ کرنا غلط ہے،وہ لوگ وہاں سے باہر نہیں جا سکتے، مجسٹریٹ کے پاس پیش نہیں کیا جانا،32 میں سے 10، 12 لوگوں کی گرفتاری ڈالی گئی، باقیوں کو غیرقانونی حراست میں رکھا گیا، گرفتاری تفتیشی افسر کی خواہش پر نہیں کی جا سکتی، کوئی وجہ ہونی چاہیے، جن 21 لوگوں کو10 گھنٹے رکھ کر چھوڑ دیا گیا ان کا سٹیٹس کیا ہو گا؟ چیف جسٹس جن 21 لوگوں کو چھوڑ دیا گیا اُن کی گرفتاری ہی نہیں ڈالی گئی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے کہا کہ درخواست کے مطابق 10 خواتین اور 15 مردوں کو اٹھایا گیا ہے،ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ کہ مقدمہ کے علاوہ مرد کارکنوں کو بھی ذاتی مچلکوں پر چھوڑ دیا گیا ہے جس پر وکیل علی بخاری نے کہا کہ تین چار لوگوں سے متعلق ہمیں کچھ معلوم نہیں، ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہو رہا، دوران سماعت وکیل علی بخاری کا کہنا تھا میں نے اس بار تو چھوڑنا نہیں ہے پوری تیاری کر کے آیا ہوا ہوں،چیف جسٹس نےایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ کیا مرد کارکنوں کو ذاتی مچلکے پر چھوڑنے کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ نے لوگوں کو اٹھا کر10 گھنٹے بعد چھوڑ دیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مقدمہ میں نامعلوم لوگ بھی تھے اس لیے دیگر لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔
چیف جسٹس نے پھر سوال کیا کہ آپ کس قانون کے تحت اس طرح کسی شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کسی ثبوت کے بغیر کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں؟پی ٹی آئی سیکرٹریٹ میں بیٹھے تمام لوگوں کو گرفتار کیا جانا لازم تھا؟ کیا اُس دفتر میں موجود ہونا کوئی جرم ہے؟اگر علی بخاری ایڈووکیٹ وہاں موجود ہوتے تو انہیں بھی گرفتار کر لیا جاتا؟ ایڈووکیٹ علی بخاری نے کہا کہ پارٹی سیکرٹریٹ سے واٹر ڈسپنسر بھی اٹھا کر لے گئےجس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے حکام سے استفسار کیا کہ پانی پینا تھا؟32 لوگوں کو وہاں سے اٹھا لیا گیا، کیا آپکو وہ سب مطلوب تھے؟
وکیل علی بخاری نے عدالت کو بتایا کہ تمام لوگوں کے موبائل فون بھی واپس نہیں کیے گئے،چیف جسٹس عامر فاروق نےاستسفار کیا کہ کیا اِن لوگوں کے موبائل فون ایف آئی اے کے پاس ہیں؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائمز نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 10 لوگوں کے موبائل ہمارے پاس ہیں واپس کر دینگے،چیف جسٹس نے سوال کیا جن لوگوں کو گرفتار نہیں کیا گیا ان کے موبائل فون کس قانون کے تحت رکھ لیے گئے؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹیکنیکل انالیسز کرنا تھا اس لیے موبائل فون رکھ لیے، چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا جس بندے کو گرفتار نہیں کیا گیا ان کا موبائل کیسے رکھ لیا گیا؟کوئی قانون قاعدہ دیکھا کریں، اسی مواد کے اوپر ٹرائلز چلتے ہیں، آپ کو پتہ ہے کسی کی پراپرٹی اپنے پاس رکھ لینا چوری ہے؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے حکم دیا کہ جن لوگوں کی جو چیزیں ہیں اُن کو واپس کریں،چیف جسٹس کا ایف آئی اے حکام سے مکالمہ کیا اور کہاکہ کوئی قاعدہ قانون دیکھیں، کیا آپ کو قانون کا پتہ نہیں ہے؟ اب معاملہ میرے سامنے آ گیا تو اِس پر کچھ آرڈر تو لکھوں گا نا،پولیس اور ایف آئی اے کی تعریف تو کرنے سے رہا کہ انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے،اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ پولیس سٹیٹ بن گئی ہے جو دل چاہتا ہے کر لیتے ہیں،پولیس سٹیٹ یہی ہوتی ہے نا کہ کوئی کام قانون قاعدے کے تحت نہ کریں،کیا میں لکھوا دوں کہ چوری کا مقدمہ درج کروا دیا جائے؟جو عدالتی فیصلوں کے حوالے دینے ہیں دیدیں، میں آرڈر لکھوں گا۔