(امانت گشکوری) ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت 26 جون تک ملتوی کر دی گئی۔
تفصیلات کےمطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سرپرستی 7 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ، بنچ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بنچ میں شامل ہیں ، دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا درست نہیں ہے، کوئی سویلین فوجی کو بغاوت کیلئے اکسائے تو ملٹری کورٹس کارروائی کر سکتی ہیں،دیکھنا ہوگا کہ سویلینز کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا،یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پر مقدمات فوجی عدالت منتقل کیے،پاکستان آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا ہے۔
وقفے سے پہلے کی سماعت
، درخواست گزار کرامت علی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرا دی ہیں،میری درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے،میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا،میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہوسکتا،سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں،کسی ملزم کی رہائی کی استدعا میری درخواست میں نہیں ہے،میں سول سوسائٹی کی نمائندگی کر رہا ہوں،آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کچھ شقوں کے خلاف دلائل دونگا،سپریم کورٹ کے پانچ فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں،1998 میں ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلہ آیا،ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا،کوئی نہیں کہتا کہ ملزمان کا سخت سے سخت ٹرائل نہ کریں، انسداد دہشتگردی عدالت سے زیادہ سخت سزا کہاں ہوگی؟
جسٹس منصورعلی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا،آرمی ایکٹ ہو یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ فوجی عدالتوں میں ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو،سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کر رہے تو قانون کی بات کریں۔
یہ بھی پڑھیں:ایکسائز ٹیکس وصولی ہدف حاصل کرنے سے کوسوں دور، اعدادوشمار نے سب کو ہلا ڈالا
جسٹس مظاہر علی نقوی
جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ آپ جو کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں،9 مئی کے واقعات کے مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟کمانڈنگ افسر نے ایڈمنسٹریٹیو جج کو سویلینز کی فوجی اتھارٹیز کو حوالگی کی درخواست کی،کمانڈنگ افسر کی درخواست کے ذرائع نہیں بتائے گئے ، وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کل عدالت نے پوچھا تھا کہ کیا یہ درخواستیں پہلے ہائیکورٹ میں نہیں جانی چاہئے تھیں ، ایک سے زیادہ صوبوں کا معاملہ ہے ایک ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بن سکتا،یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابل سماعت ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے دلائل کی بنیادیہ ہے کہ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرے؟،جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا درخواستیں قابل سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں،وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں،جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ آپ کے مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہونے والا جرم ضروری نہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہوا ہو، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگتا ہے؟
کمانڈنگ افسر کیسے سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں ملزمان کی فوجی عدالتوں کو حوالگی کی درخواست نہیں دی جاسکتی،جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ ابھی تک یہ نہیں بتا سکے کہ کب مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں؟ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسر کیسے سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پہلے یہ بتائیں کہ کیسے فوج کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا کہ ان افراد نے جرم کیا ہے، بار بار آپ سے سوال کر رہے ہیں اور آپ جواب نہیں دے رہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ بتا دیں کہ کیسے طے ہوتا ہے کہ کسی کیخلاف آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے؟
آرمی ایکٹ کب لگتا ہے ؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ سول ٹرائل چل رہا ہے تو فوج کیسے فیصلہ کر لیتی ہے کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کر دو؟ جسٹس یحیی آفریدی نے سوال کیا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات آرمی ایکٹ میں کہاں ہیں؟ جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ کب لگتا ہے یہ بتا دیں؟جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ کیا آرمی اتھارٹیز یہ فیصلہ کر بھی سکتی ہیں کہ کسی سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟اگر ایک شخص کا سول کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے تو کیا فوج اس کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتی ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ فوج کا اندرونی طریقہ کار کیا ہے جس کے تحت یہ طے ہوتا ہے کہ سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟
فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی،جسٹس منصور علی شاہ نے پھر سے کہا کہ کوئی دستاویزات تو دکھا دیں جس کی بنیاد پر سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ بھی قانون میں ہے کہ اگر فوج سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے،جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت نے کب سویلینز کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی؟
سوالات کے جوابات نہ دینے پر جرمانہ
جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل فیصل صدیقی کو کہا کہ آپ ہمیں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا سیکشن 13 نہ پڑھائیں، وکیل نے جواب دیا کہ مسئلہ فورم طے کرنے کا ہے کہ کہاں ٹرائل ہوگا؟جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ٹرائل کا فورم کیسے طے ہوتا ہے یہی سوال ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کسی کی گرفتاری کیلئے آنے سے پہلے فوج اپنے گھر پر کیا تیاری کرتی ہے یہ بتا دیں،چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسداد دہشتگردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے، فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست نہیں کی گئی،جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آپ نے کہا آرمی ایکٹ کو رہنے دیں طریقہ کار کو دیکھیں، پھر تو ہمیں انفرادی طور پر ایک ایک شخص کی گرفتاری کا معاملہ دیکھنا پڑے گا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ بریک لے لیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کافی وغیرہ پئیں سوالات کے جوابات نہ دینے پر آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا۔
پاکستان آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا ہے
وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا درست نہیں ہے، کوئی سویلین فوجی کو بغاوت کیلئے اکسائے تو ملٹری کورٹس کارروائی کر سکتی ہیں،دیکھنا ہوگا کہ سویلینز کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا،یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پر مقدمات فوجی عدالت منتقل کیے،پاکستان آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا ہے،جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ قومی سلامتی جیسے معاملات میں فوج براہ راست متاثر ہوتی ہے،کسی حاضر سروس فوجی افسر کو قومی سلامتی کے خلاف سازش کیلئے اکسانا سنگین جرم ہے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، سپریم کورٹ کو یہ حق کہاں سے حاصل ہوا کہ آرمی ایکٹ کا جائزہ لے سکے؟
جسٹس منیب اختر نےدوران سماعت ریمارکس دیئےکہ مخصوص حالات میں آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے،جب ایمرجنسی کا نفاذ ہوتا ہے تو لوگوں کی نقل و حرکت بھی روک دی جاتی ہے،کیس کی سماعت 26 جون صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی ۔