ہمارے معاشرتی زوال کے اسباب !

تحریر : اسلم اعوان

Jun 23, 2024 | 17:29:PM
 ہمارے معاشرتی زوال کے اسباب !
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

خیبر پختو نخوا کے شہر سوات میں مقامی لوگوں نے توہین قرآن کے الزام میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاح کو پولیس اسٹیشن سے نکال کر قتل کرنے کے بعد نعش کو جلا ڈالا،قبل ازیں2017 میں مردان یونیورسٹی کے 23 سالہ سٹوڈنٹ مشال خان کو بھی مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں اسی انداز میں قتل کر دیا تھا،ہماری جدید تاریخ میں 1947 سے لیکر اب تک ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والے 103 افراد میں سے 1992 تک صرف 3 شہری ہلاک ہوئے جبکہ 1992 سے2024 تک 100 انسان ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے۔

1995 میں ہجوم کے ہاتھوں اسٹریٹ جسٹس کا پہلا واقع گوجرنوالا میں اُس وقت پیش آیا جب مشتعل ہجوم نے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے حافظ فاروق کو پولیس کی حراست میں توہین قرآن کے الزام میں قتل کر ڈالا تاہم پچھلی دو دہائیوں کے درمیان گورننس کی ناکامیوں کے باعث بتدریج معاشرتی زوال اور اسٹریٹ جسٹس کے رجحان میں جس طرح تیزی آئی وہ تباہ کن نتائج کی حامل ثابت ہوئی۔سنہ2010 میں گوجرنوالہ میں مشتعل ہجوم نے ڈکیتی کے الزام میں پولیس تھانہ میں پناہ لینے والے دو بھائیوں کو نکال کر بیدردی سے ہلاک کر دیا،اوکاڑہ میں توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے اسلامی جمعیت طلبہ کے دو نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔جنوری 2011 میں گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کو توہین رسالت کے الزام میں اپنے ہی سیکیورٹی گارڈ نے مار ڈالا۔سنہ 2020 میں توہین مذہب کے الزام میں سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے ہجوم کے ہاتھوں قتل سمیت کراچی،سندھ اور پنجاب میں مبینہ ڈاکووں کے علاوہ اقلیتوں کی آبادیوں پہ مشتعل ہجوم کے حملوں پہ ریاستی اتھارٹی کی مجرمانہ خاموشی اور عدالتی مقتدرہ کی بزدلانہ پسپائی نے شہریوں کے سماجی روّیوں کو بُری طرح متاثر کیا،افسوس کہ ہم نے جن کے گرد مقبولیت کا ہالہ کھینچا، انکی ممتاز ترین صفت بزدلی ہے،یہی سرکاری افسران اپنے غرور کی بنا پر معاشرتی بقاءکے تقاضوں سے بے خبر رہتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں، ریاست بجائے خود سماج کے وجود پہ محمول ہوتی ہے اس لئے معاشرے کو ریگولیٹ کرنا ریاست کی اپنی بقاءکا اولین تقاضا ہے۔ناقص گورننس جس طرح اقتصادی ترقی میں رکاوٹ، غربت، عدم مساوات اور سماجی بدامنی کا محرک بنتی ہے، اسی طرح ایک کامیاب ریاست ترغیب اور قانونی تادیب کے ذریعے افراد کی سیرت و کردار کی تعمیر سے صحت مند معاشرہ برپا کرسکتی ہے لیکن ہماری حکومت جب چند احمقوں پہ قابو نہیں پا سکتی تو سب کو احمق بنانے پہ تل جاتی ہے،یہاں ہر منفی پکار بہت جلد لوگوں کو حراست میں لیکر اپنے مقصد کے لئے استعمال کر سکتی ہے حالانکہ ملک میں ایسی فضا پیدا کرنے کی ضرورت تھی جس میں استحکام پیدا ہو ،اصول اور قانون کی حکمرانی قائم ہو اور ہم عدل و انصاف کو اصول زندگی بنا سکیں لیکن اس ملفوف آمریت نے لوگوں کی قوت تخیل کو مفلوج کر دیا، ہماری مصیبت زدہ نسل اب آزادی کی مشتاق نہیں رہی بلکہ وہ شدت کے ساتھ تحفظ،نظم و ضبط اور امن کی خواہشمند ہے ۔ بلاشبہ تہذیب، ضبط نفس کے بغیر ناممکن ہے،جدید دنیا میں اعلی مہارتوں کے حامل رجال کار کے علاوہ اچھے اخلاق کے مالک دیانتدار اہلکار اور ایماندار شہری بھی مملکت کا سرمایا سمجھے جاتے ہیں لیکن ہماری ریاست کی ترجیحات میں بہترین ہیومین ریسورس مہیا کرنے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ۔

بلاشبہ پُرامن معاشرے کے قیام میں ایمانداری اہم اقدار، صفات اور تعلیمات میں سے ایک ہے،جس کا انسانی زندگی کے مختلف پہلووں اوراجتماعی حیات کے تمام شعبوں پہ گہرا اثر پڑتا ہے۔ چونکہ ہمارے اعلی ترین طبقات افلاس کو اپنی عظمت کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں،اس لئے بن کمائی دولت کا زہر ہماری سوسائٹی کے رگ و رشہ تک اتر گیا،کرپشن نے انکی بصیرت کو کند کر دیا، اگر انہیں اوپر کی کمائی نہ ملے تو پورا عمل انہضام بگڑ جاتا ہے۔ علی ہذالقیاس ، تاریخ گواہ کہ انسانی زندگی میں سماجی اور سیاسی علوم کو لازمی شرط اور بنیادی ضرورت کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ کسی بھی معاشرے کا سکون اور سماجی اعتماد ایمانداری اور سچائی سے مربوط رہتا ہے بلکہ ایمانداری کسی بھی معاشرے کے اتحاد کا سب سے اہم عنصر ہے۔سماجیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ سماجی اثاثوں کا سب سے اہم عنصر باہمی اعتماد اور وہ بھروسہ ہے جس کی اساس ایمانداری پہ رکھی ہوتی ہے، ذہنی دیانت کسی بھی معاشرے کی فلاح و بہبود، معاشی ترقی ،باہمی ربط ،اعتدال اور سربلندی کا سب سے بڑا محرک ہے۔بیسویں صدی کے معروف ماہر عمرانیات لابک کا کہنا ہے کہ”بھروسہ اور ایمانداری ایسا سماجی اثاثہ ہے اگر اسے تباہ کر دیا جائے تو معاشرے برباد ہو جاتے ہیں لیکن ہمارا معاشرہ غیر معقول اور بزدلوں کا ایسا ملغوبہ بن چکا ہے جو دراصل اخلاقی معیارات اور سماجی اصولوں سے خوفزدہ ہے ،یہ لوگ فاتح کی حوصلہ افزائی اور شکست خوردہ کی تضحیک میں خوشی محسوس کرتے ہیں ،ذہنی طور پہ پراگندہ لوگوں کا معاشرہ ہمہ وقت اپنی سمت بدلنے کے لئے ہر شیطان کے قبضے میں آنے کو تیار ہوتا ہے، اس کے برعکس زندہ و بیدار معاشروں کے افراد ایسی سوچ کے حامل ہوتے ہیں جو قربانی،ایثار اور ضبط نفس پہ قادر ہو ۔ غیر معقول سوچ وہ سوچ ہے جو نہ تو ابدی حقائق سے مطابقت رکھتی ہے نہ اس کی تائید کرتی ہے،چونکہ ہم ایک غیر عقلی معاشرے کے رکن ہیں اس لئے صحت مند رجحانات سے منسلک رہنے کی طرف مائل نہیں ہوتے۔

 بہرحال یہاں گورننس سے ہماری مراد ریاستی ڈھانچہ کا مجموعی ریسپانس ہے جس میں انتظامیہ،عدلیہ اور مقننہ جیسے وہ تمام ادارے شامل ہیں جو قومی سلامتی یا معاشرتی عوامل سے ڈیل کرتے ہیں۔ چنانچہ فی الوقت ہماری قومی سلامتی اور عوامی زندگی کو ناقص گورننس کی وجہ سے سنگین نتائج کا سامنا ہے۔ جس طرح معاشرتی بگاڑ دراصل فرد کے ذہنی زوال کا مظہر ہوتا ہے،اسی طرح بدعنوانی اور گڈ گورننس کے تصور بھی ایک دوسرے سے نسبت معکوس رکھتے ہیں۔چنانچہ اصلاح احوال کے لئے ذہنی و عملی دیانت ناگزیر ہے،محض طاقت اور قانونی تشدد کے ذریعے زندگی کے اجتماعی دھارے کو ریگولیٹ کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔بدقسمتی سے ہمارا سسٹم پلوٹوکریسی سے مماثل ہے بلکہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ دولت مندوں کی حکومت، دولت مندوں کے لئے، دولت مندوں کے ذریعے کے اصول پہ قائم ہے۔انہی لوگوں کے کنٹرول میں بڑی صنعتیں، بگ فارما، فوڈ کمپنیاں، بینک، انشورنس انڈسٹری، میڈیا، ایئر لائنز، کار کمپنیاں اور تیل،کوئلہ، سونا اورتانبے کی کان کنی کے کارپوریشنز ہیں۔عالمی مقتدرہ کے تابع موجودہ نظام عوام کے لئے تشدد، خوف ، بیماریاں اور وبائی امراض کی لہریں اٹھاتا ہے،ہماری زمین پہ کل آبادی کا کم و بیش ایک فیصد ایسے لوگ ہیں جو پورے سیارے کے وسائل پہ قابض ہیں لیکن وہ دوسروں انسانوں سےکچھ بانٹنا نہیں چاہتے،حیرت انگیز طور پر دنیا کی 46% دولت صرف ایک فیصد افراد کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ اب بھی مزید چاہتے ہیں۔ لہذا، اب وہ کوویڈ سے موسمیاتی تبدیلی کی طرف بڑھ رہے ہیں،کوویڈکے ساتھ، انہوں نے کرہ ارض کو ایک ایسے وائرس پر یقین کرنے کا جھانسہ دیا جو کبھی بھی انسان سے الگ تھلگ نہیں رہا، تاکہ دولت کی منتقلی، شہریوں پر کنٹرول اور انہیں ایسی ویکسین لینے پہ مجبور کیا جا سکے جس سے لاکھوں افراد ہلاک ہو جائیں۔ اب وہ آب و ہوا کو تبدیل کرنے کے لیے جیو انجینئرنگ کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ وہ ہم پر پابندیاں اور ٹیکس لگا سکیں۔ فارم کی زبردستی بندش،مویشیوں کی ہلاکت، بھوک، خریداری پر ڈیجیٹل پابندیاں تاکہ لاکھوں مزید جانیں لے لی جائیں گی اور یہ سب کچھ ہمیں صحت اور خوشی فراہم کرنے کی آڑ میں کیا جائے گا۔

طاقت اگرچہ دوسرے لوگوں کے ذریعے کام کروانے کی صلاحیت کا نام ہے،ریاست کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہے، اتنا موثر کام کر سکے گی تاہم قوت محض قانون کا کوڑا نہیں بلکہ طاقت ، امانت و دیانت اور عدل و انصاف کی نمائندگی کرتی ہے۔ زیادہ طاقت کی خواہش میں اخلاقی طور پر کوئی حرج نہیں مگر”طاقتِ محض“ فقط تقسیم کرتی، یہ صرف صداقت ہے جو دھڑے بندی نہیں کرتی اور ریاست کو بہترین حالات کی تشکیل اور دوسروں پر اثر انداز ہونے کی اجازت دیتی ہے،کنٹرول کی یہ خواہش سیکورٹی اور خودمختاری کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ان فیصلوں سے پیدا ہوتی ہے جو عوام کی زندگیوں کو متاثر کرتے ہیں، طاقت غیر منقطع رویے اور حد سے زیادہ اعتماد کو بھی فروغ دیتی ہے۔عدل و انصاف کے اصولوں سے معری طاقت بے لگام رویوں،لامحدود آزادی، اور مرعات میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی شکل اختیار کر لیتی ہے جبکہ عدل و انصاف اور ذہنی دیانت سماجی رویوں کو منضبط رکھتی ہے ۔یہاں تک کہ صداقت کی صرف تھوڑی سی طاقت کے ساتھ، آپ معاشرے کے تاثرات، احساسات اور رویوں میں تبدیلیوں کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح آپ اچھا محسوس کرتے ہیں، آپ زیادہ پُراعتماد اور خود کو زیادہ فیصلہ کن اور زیادہ عمل پر مبنی محسوس کرتے ہیں۔

دیگر کیٹیگریز: بلاگ
ٹیگز: