(24 نیوز)سعودی عرب نے 6سالہ تنازع کے خاتمہ کیلئے یمن کے حوثی باغیوں کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک جامع جنگ بندی کی پیشکش کر دی۔
عالمی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں تیل کی تنصیبات سمیت سعودی عرب کی دیگر تنصیبات پر حملوں میں تیزی لانے والے ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے سعودی عرب کے اقدامات کو یہ کہہ کر کر مسترد کردیا ہے کہ ’’یہ کوئی نئی بات نہیں‘‘۔6سال سے جاری اس تنازع میں حال ہی میں تیزی آئی ہے اور حوثی باغی سعودی عرب کی حمایت یافتہ یمنی حکومت کے شمال میں واقع آخری مضبوط گڑھ پر قبضہ کرنے کے انتہائی قریب پہنچ گئے ہیں۔سعودی حکومت نے مذاکرات کی پیش کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ اس اقدام کے تحت اقوام متحدہ کی نگرانی میں ملک بھر میں ایک جامع جنگ بندی شامل ہے۔ سعودی عرب نے باغیوں کے زیر قبضہ دارالحکومت صنعا میں ہوائی اڈے کو دوبارہ کھولنے اور یمنی حکومت اور حوثیوں کے مابین سیاسی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے دارالحکومت ریاض میں میڈیا کو بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بندوقیں بالکل خاموش ہوجائیں اور جیسے ہی حوثی باغی اس معاہدے پر رضامندی ظاہر کریں گے، اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ ادھر حوثیوں نے ریاض کے اقدامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں اور اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے یمن پر سعودی قیادت میں کی گئی ہوائی اور سمندری ناکہ بندی کو اٹھایا جائے۔حوثی باغیوں کے ترجمان محمد عبد السلام نے کہا کہ سعودی عرب کو جارحیت کے خاتمے کا اعلان اور ناکہ بندی کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال اپریل میں باغیوں سے لڑنے والے سعودی عرب کی زیرقیادت فوجی اتحاد نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے جنگ سے متاثرہ یمن میں عارضی جنگ بندی کا آغاز کیا تھا لیکن حوثیوں نے اس اقدام کو سیاسی چال قررا دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔اس تازہ تجویز کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے ایک عرصے سے تعطل کا شکار امن مذاکرات کی بحالی کے لئے ایک نئی تجویز پیش کی گئی ہے۔امریکا نے حالیہ عرصے میں یمن میں سعودی عرب کی جارحانہ کاروائیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر ڈرون اور میزائل حملوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی مذمت کی ہے۔