(عثمان دل محمد) ماہ رمضان برکتوں والا مہینہ ہے اور اس ماہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوا، رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔
روزہ وہ عظیم فریضہ ہے جس کو رب ذوالجلال نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور قیامت کے دن رب تعالیٰ اس کا بدلہ اور اجر بغیر کسی واسطہ کے بذات خود روزہ دار کو عنایت فرمائیں گے۔ خداوند کریم نے اپنے بندوں کے لئے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے۔
سحری و افطاری کے وقت لوگ دعاؤں کے ساتھ اپنا روزہ رکھتے اور کھولتے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ روزہ رکھنے کی دعا کسی حدیث مبارکہ میں منقول نہیں۔ اصل نیت فرض ہے جو دل کے ارادے کا نام ہے۔ نیت کا مطلب کسی چیز کا پختہ ارادہ کرنا ہے اور اصطلاح شرع میں نیت کا مطلب ہے کسی کام کے کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا ارادہ کرنا۔
نماز، روزہ، زکواۃ، حج وغیرہ جیسی عبادات میں نیت فرض ہے لیکن الفاظ فرض نہیں۔ البتہ آج کل ذہن منتشر ہوتے ہیں، لہٰذا ایک تو زبان سے کہہ لینے سے دل کا ارادہ و قصد ظاہر ہو جائے گا، دوسرا زبان سے بولا جانے والا ہر لفظ نیکیوں میں لکھا جائے گا کیونکہ رضائے الٰہی کی خاطر کیا جانے والا کام جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو، تو اسلام اس کو قبول کرتا ہے۔ امر مستحسن کے طور پر اس کام پر اجر و ثواب اور فوائد و برکات بھی متحقق ہوتے ہیں۔ لہٰذا روزہ رکھتے وقت مروجہ دعا کے الفاظ بطور نیت دہرانا بدعتِ حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے۔
ملا علی قاری، مرقة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 2 : 304
روزہ رکھتے وقت درج ذیل دعا پڑھنی چاہئے:
وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ
’’میں نے کل کے ماہِ رمضان کے روزے کی نیت کی۔‘‘
جب کہ روزہ افطار کرنے کی دعا مختلف الفاظ کے ساتھ کتبِ حدیث میں بیان ہوئی ہے، جن میں سے ایک حضرت معاذ بن زہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے :
اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ
أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 : 294، رقم : 2358
‘‘ اے اﷲ! میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کیا۔‘‘
بعض کتب حدیث میں یہ دعا مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے، جیسے وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ (اور میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا) یا فَتَقَبَّلْ مِنِّی، اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (پس تو (میرا روزہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا جاننے والا ہے)؛ لیکن ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ افطاری کی دعا میں وَبِکَ آمَنْتُ کے الفاظ کی کوئی اصل نہیں مگر یہ الفاظ درست ہیں اور دعائیہ کلمات میں اضافہ کرنا جائز ہے (جس طرح بعض لوگ حج کے موقع پر تلبیہ میں اضافہ کر لیتے ہیں)۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں ہم اِفطار کے وقت درج ذیل مروجہ دعا پڑھ سکتے ہیں :
اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ
’’اے اﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کیا۔‘‘