جدامنصب ،جداقدریں،جداعقائد،جداذاتیں،ان سب کو ایک لڑی میں پروتا ہے سماج، معاشرہ، سوسائٹی۔۔۔اندرون لاہور ایک بازار میں کسی دکان کی میز پر میرے سامنے، چھوٹے چھوٹے مختلف رنگ و نسل کے پتھر پڑے تھے،بے وقعت اور بے معنی پتھر،ایک ایک کر کے دکاندار پتھروں کو اٹھاتا گیا اور ایک دھاگے میں سے گزار کر گرہ لگاتا گیا،اب یہ پتھر بے معنی اور بے وقعت نہیں رہے تھے۔
25، 33، 34 اور 1000 دانوں کی تسبیح کی شکل میں ڈھل کر اہمیت اختیار کر چکے تھے،سماج بھی ایک دکاندار ہوتا ہے ،الگ الگ ثقافت، مختلف عقائد، جداگانہ سوچ، ذات پات رکھنے والے مختلف رنگ و نسل کے افراد کو رواداری کے دھاگے سے گزارتا ہےاور برداشت کی گرہ لگا کر ایک قوم بنا دیتا ہے،پھر کاروبار مملکت میں برکت پڑتی ہے.
ایک دن آتا ہےیہ سماج معاشی اور اخلاقی لحاظ سے ایک منافع بخش کاروباربن جاتا ہے,بے لوث محبت اور احساس ِ عنایت سے,درگزر کی پالیسی، بے ضمیری کی رخصتی، زندہ دلی اور احساسِ ذمہ داری سےتب جا کر وہ قوم ترقی کرتی ہے,تب جا کر وہ ملک عروج پاتا ہے۔
ابھی ابھی حال ہی میں دنیا بھر میں ہمیں بدنام کرتا اچھرہ واقعہ ہمارے ایک ایسے نیک نام سماج میں ہوا جس کے متعلق صدیوں سے مشہور ہے’’ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا‘‘کیا ہم یہ دن دیکھنے کیلئے پیدا ہوئے تھے؟۔
کوئی ڈیڑھ سال قبل پنجاب کے اُس وقت کے وزیر داخلہ نے خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کے متعلق انکشاف کیا: پنجاب بھر میں روزانہ 4 سے 5 کے قریب خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے۔ توبہ! آج 2024 آگیا۔ کیا اس صورتحال میں کوئی بہتری ہوئی؟۔ 2024 میں خواتین کو ہراساں کرنےاور زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھے ہیں۔
صرف لاہور میں دو ماہ میں لاہور پولیس کو خواتین کو ہراساں کرنے کی 1437 کالز ون فائیو پر موصول ہوئیں۔ جنوری کے مقابلے میں فروری میں خواتین کو ہراساں کرنے اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
خواتین کیساتھ ظلم کے قصے سے آگے بڑھیے۔ بتائیے۔ کیا ہمارے بچے محفوظ ہیں؟۔ محکمہ داخلہ کا ہی چونکا دینے والا انکشاف:۔ لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کیساتھ جنسی زیادتی کے واقعات!!۔۔
جنوری سے 15 جون 2023 تک مرتب رپورٹ کے مطابق 6ماہ سے بھی کم عرصے میں صرف پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے 1,390 حادثات!!۔ انہوں نے 959 نابالغ لڑکوں اور 431 لڑکیوں کیساتھ درندگی کی،کس نے؟۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن خبر: 55 فیصد پڑوسیوں نے۔ 13 فیصد رشتہ داروں نے اور 32 فیصد اجنبیوں نے۔ یااللہ! اجنبی تو اجنبی! پڑوسی اور رشتہ دار بھی!!۔۔ جن کے حقوق کی بجاآوری پر اللہ کی کتابیں اور احادیث ہم روز پڑھتے ہیں۔
مشرقی معاشرہ۔۔۔ ہمارا مشرقی معاشرہ کہاں ہے؟۔۔ مشرقی اقدار۔ بڑے طمطراق کیساتھ جن کا دم بھرتے ہوئے ہم مغرب پر برستے ہیں۔ وہ مشرقی اقدار کہاں ہیں؟۔۔کیا ہمیں اپنے عظیم ملک کی عزت اور ملک کیساتھ لگے نام اسلامی جمہوریہ کا بھی خیال نہیں رہا؟۔
19 سال گزر گئے' وہ رقبے کے لحاظ سے پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل منچن آباد کا ہائی سکول تھا۔ میں پیر کے دن اِس سکول کی میٹرک کی کلاس میں داخل ہوا۔ استاد محترم امین حفیظ پڑھا رہے تھے۔ اُس وقت کلاس روم میں بنچ رکھے ہوتے تھے۔ ہر ایک پر 3 سٹوڈنٹس بیٹھنے کی گنجائش والے بنچ۔۔ سب کے سب مگر بھرے ہوئے۔۔۔میں کچھ دیر تک یونہی کھڑا رہا۔۔۔کلاس کو میں اور کلاس مجھے تکتی رہی۔۔جیسے کسی حادثے کے بعد سڑک پر پڑا زخمی اپنے اردگرد جمع لوگوں کو۔۔جو اسے ہسپتال پہنچانے کی بجائے کھڑے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔۔۔کلاس روم میں بھی کوئی اپنے نئے کلاس فیلو کیلئے جگہ کی گنجائش نکالنے کو آمادہ نظر نہیں آیا تھا۔۔اچانک سب سے اگلے بنچ سے کوئی اُٹھتا دکھائی دیا۔ یہ اقبال خان بلوچ تھا۔ پھر دوسرا اور تیسرا لڑکا بھی اٹھا۔ یہ زاہد بلوچ اور وقار غوری تھا۔سکول کے ہونہار اور لائق ترین سٹوڈنٹس۔۔۔ان تینوں نے کلاس روم میں ایک بہترین سماج کی تشکیل کی مثال قائم کی۔۔۔بنچ پر خود کو سکیڑا۔۔جگہ بنائی۔۔اور مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔۔۔پھر ایک دن ایک اور طالبعلم کو جگہ نہ ملی۔۔۔اب ایک بنچ پر 5 طلبا تھے۔ یہ پانچواں عثمان وٹو تھا۔۔۔اللہ کی آخری کتاب بتاتی ہے: انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔۔۔ یہ تینوں طالبعلم مجھے جانتے نہیں تھے۔۔ ان تینوں نے وہی کوشش کی،جس کی ایک مہذب سماج اپنے شہریوں سے توقع رکھتا ہے۔۔دوسروں کیلئے اپنے دل میں جگہ بنانے کی توقع۔۔ خیر خواہی کی توقع۔۔اپنے ماں باپ،دوستوں،رشہ داروں،پڑوسیوں،استادوں کیلئے خوشی کا ساماں کرنے کی توقع۔۔۔ایک دن اللہ کی آخری کتاب میں لکھا پورا ہوا۔۔اُن طالبعلموں کی سماج کی بہتری کی کوشش کامیاب ہوئی۔۔۔پوری کلاس میں سب سے زیادہ خدا نے پھر اس بنچ کو نوازا۔۔۔ اقبال خان ہیڈ ماسٹر بن گیا۔۔۔کتنے ہی بچے اور بچیاں اس سے فیض پا رہے ہیں۔۔۔سماج میں ایسے شہری اور ایسا دوست خدا سب کو دے۔۔ وقار غوری نے ڈاکٹر کا اعزاز پایا۔۔اس کے کلینک میں مریضوں کو چشم بینا عطا ہوتی ہے۔ زاہد بلوچ پروفیسر کی نشست سنبھال کر اقبال کے شاہینوں کو آسمانوں پر کمند ڈالنے کا درس دیتا ہے۔۔اور عثمان وٹو کو ہم ایک باعمل عالم اور باکردار سیاستدان کے روپ میں علم اور کردار کی شمع روشن کرتے دیکھ رہے ہیں۔
ایک بہترین سماج کیسے بنتا ہے؟۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے بتایا: جو شخص انسانوں کا شکر نہیں ادا کرتا وہ اللہ کا بھی شکرگزار نہیں ہوتا۔ 13 سال بیت چلے' ابھی کل ہی کی تو بات لگتی ہے۔ جب پنجاب یونیورسٹی کی ایم اے صحافت کی کلاس میں' ایک تھیسز پر پریزنٹیشن دینے کیلئے بنے گروپ نے' وقت ِآخرمجھے تنہا چھوڑ دیا۔ حسن ظن سے کام لینا چاہیے کہ شاید ازرہ مذاق۔ وہ لمحہ مگر مجھے ایک سبق سکھا گیا۔۔۔تنہا رہ جانے پر بھی سچائی کیلئے میدان میں رہنے کا سبق۔۔۔2011 میں ایم اے کی میچور سمجھے جانے والی کلاس 2005 کی کند ذہن سمجھی جاتی میٹرک کی کلاس سے کم تر کیسے نکل آئی؟۔۔کیا انسان وقت گزرنے کیساتھ' مزید سے مزیدمہذب ہونے کی بجائے‘ اُلٹا ایک دوسرے سے غیرمانوس ہوتا جارہا ہے؟۔۔ میں سوچتا رہ گیا۔۔۔ کبھی کبھی آپ سماج میں اکیلے بھی ہوجاتے ہیں۔۔۔اپنے ضمیر کی آواز پر چلتے ہوئے۔ اپنے حصے کا سچ بولتے ہوئے۔ یا کسی اصول کی بنا پہ،مظلوم کیساتھ کھڑے ہوکر، طاقتور دِکھتی جابر قوت کے سامنے نہ جھکنے،نہ بکنے اور نہ ڈرنے کا عزم کیے ہوئے۔ اگر آپ حق پر ہوں تو کسی سے لڑیں مت۔ اللہ پر یقین رکھیں اور پریشان نہ ہوں۔ آپ کی کوششوں سے یہ سماج ہی آپ کو آپ کا حق‘ نفع کیساتھ لوٹائے گا۔۔۔بیٹھے بیٹھے یہ سوچتے سوچتے اُس دن میں نے ایک فیصلہ کرلیا۔۔۔ہمیشہ ہرحالت میں اللہ پر یقین کرنیکا فیصلہ۔۔۔اچانک‘ صحافت کے استاد پروفیسر ڈاکٹر سہیل ریاض راجہ کی بارعب آواز گونجی: آپ کا گروپ کونسا ہے؟۔ ”جو مجھے چھوڑ گیا۔ میں نے کہا“۔” اب آپ کیا کریں گے؟ استاد محترم بولے“۔ انہیں بتایا : اب سب ہی توپریزنٹیشن دے چکے۔میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ مجھے اکیلے ہی پریزنٹیشن دینے کی اجازت دیجئے۔۔ ایمان کی طاقت کیساتھ میرے دل سے نکلے یہ الفاظ کام دکھا گئے۔۔۔شفیق استاد نے ڈانٹ کر حوصلہ توڑنے کی بجائے ایک موقع دے کر میرا جذبہ آسمان تک پہنچادیا۔۔۔اگلے ہی دن میری پریزنٹیشن پر‘ کلاس روم میں بیٹھا "سردمہر" سماج‘ اپنے اِس کلاس فیلو پر نازاں تھا۔
اُس دن 2011 میں پروفیسر ڈاکٹر سہیل ریاض راجہ کی کلاس میں مجھے سمجھ آئی: سماج کوئی بے جان چیز نہیں ہوتی۔۔۔سماج ایک خاندان ہوتا ہے۔۔جہاں اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔۔۔برے ہمیشہ برے نہیں رہتے۔۔۔اور اچھے ہمیشہ سے ہی اچھے نہیں ہوتے۔۔۔کوڑا پھینکنے والی' دنیا کے شفیق ترین انسان پیارے نبیؐ پر ایمان لے آئی تھی۔۔۔عرب سماج کی اُس خاتون پر کسی نے تشدد نہیں کیا تھا۔۔۔وہ جس عظیم ہستیؐ کیساتھ بُرا رویہ روا رکھ رہی تھی، اُس عظیم ہستیؐ کی اپنے ساتھ مسلسل مہربانیاں دیکھ کر ایک دن خود ہی اپنی غلطیوں پر پشیمان ہوگئی تھی۔ ایک اچھا سماج وہی ہوتا ہے جو انسان کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیتا ہے۔۔۔۔آج تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک سٹیٹ آف خراسان کے نام کی جماعتوں کے انتہاپسند نظریات نے پوری دنیا میں ہمیں بدنام کررکھاہے۔یہ مذہبی جنونی اسلام کے نام پر اپنے نظریات ہم پر ٹھونسنے کیلئے ہمارے فوجیوں، اہلکاروں، مسجدوں، مدرسوں،درباروں اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ہماری کوئی ریاستی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ٹی ٹی پی اپنے بیانیے کو پاکستانی سماج میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور تنظیم میں نئی بھرتیوں کے لیے استعمال کررہی ہے۔۔۔جب بات بات پر زبان کی بندوق دوسروں پر تان لی جائے وہ سماج صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں۔۔۔کسی بھی سماج کا انسان اپنی غلطیوں سے تبھی سیکھ پاتا ہے جب اُس میں اچھے لوگ موجودہوں۔۔۔حضورپاکؐ کی سنت پر عمل کرنے والے لوگ۔۔۔بہترین اخلاق کے مالک لوگ۔۔۔درگزر سے کام لینے والے لوگ۔۔۔۔صلاح جو،امن اور برداشت کی اہمیت پر یقین رکھنے والے لوگ۔۔۔کسی کا حق نہ کھانے والے لوگ۔۔۔۔آج نہ جانے طائف والوں کی مسلمان نسلیں کہاں کہاں پھیلی ہوں گی۔۔۔حضور پاکؐ کی عفودرگزر،حسن سلوک،دوستانہ تعلقات، میثاق مدینہ جیسی انہی پالیسیوں کی وجہ سے عرب کا سماج ایک منافع بخش کاروبار میں ڈھل گیا تھا۔۔۔اسلام کے فروغ کی راہ میں منافع بخش۔۔ چھوٹوں، بڑوں، یتیموں،مسکینوں، مسافروں، قیدیوں کیلئے منافع بخش۔۔۔ اُس وقت عرب اور عرب سے باہر کی جیتی جاگتی دنیا' حضور پاکؐ کی مدینہ کی ریاست کو دیکھ کر ایسی ہی مثالیں دیاکرتی تھی، جیسی آج کی دنیا سوئٹزرلینڈ کی۔۔
جس سماج کو سہیل ریاض راجہ جیسے جہاندیدہ، باکردار، رحمدل استاد مل جائیں وہ سماج پھلتا پھولتا ہے۔۔۔سہیل ریاض راجہ نے اپنے طالبعلموں کو جینے کے ڈھنگ،بات کرنے کے سلیقے، اختلاف کرنے کے آداب سکھائے۔ تو ہی آج ان کے 7 ہزار سے زیادہ سٹوڈنٹس مختلف شعبوں میں انسانی ترقیوں کی منزلیں چھو رہے ہیں۔۔۔صحافت میں استادوں کے استاد نوید چودھری جیسے مہان بزرگ سماج کا قابل فخر چہرہ ہوتے ہیں، جو زندگی کی کسی شاہراہ پر وقت کے حادثے کا شکار فرد کو بے سہارا نہیں چھوڑتے۔۔خود تو دکھ اٹھالیتے ہیں،مگر تعلق داروں پر آنچ نہیں آنے دیتے۔۔۔تھامتے اورڈنکے کی چوٹ پر سچ ہی لکھتے چلے جانے اور سچ ہی بولتے چلے جانے کا درسِ عمل دیتے ہیں۔۔۔سماج کو قدر کے قابل وجاہت مسعود کی طرح کے وہ قلم کار بناتے ہیں' جو 77ویں اگست کی کسی تاریخ سے پہلے اس دھرتی پر بکثرت پائے جاتے تھے۔۔۔جن کی وجہ سے فاختائیں امن کے گیت گاتی تھیں۔۔ اب طائر لاہوتی کو فقط چھڑی کا ہی یارا ہے۔۔۔کوئی اپنے سماج پر اسی وقت فخر کرسکتا ہے' جب اس کی پولیس میں شہربانو نقوی جیسی بہادر افسر ہوں، ایسے افسر جو جرائم پیشہ عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لاکر فرض نبھانا جانتے ہوں' اور جان ہتھیلی پر رکھ کر شہریوں کو غنڈوں سے بچانا بھی۔
ہمیں بار بار اپنے آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہیے۔ کہ یہ ہزاروں سال پرانی ساری دنیا سے عظیم تہذیب و ثقافت رکھنے والی دھرتی پر قائم ملک پاکستان‘ کیا ہمیں بیٹھے بٹھائے مل گیا تھا؟۔ ہمارے بزرگوں کے سابق ملک میں اُن کے سماج کا وہ طبقہ جو ہم پر ظلم کر رہا تھا۔ اُس سے آزادی پانے کی تمنا ہم نے کیوں پالی تھی؟۔ اور پھر سر دھڑ کی بازی لگاتے ہوئے اپنے لیے آزاد وطن پاکستان کیوں حاصل کیا تھا؟۔
اِس قلمکار کے بڑے دادا وقار انبالوی' اِس حالت میں امرتسرسے لاہور داخل ہوئے تھے: کہ اُن کے ڈیڑھ سال کے بیٹے عارف وقار کو وحشیوں نے اُس وقت برچھے کی نوک پر اچھالا‘ جب اُسے شدید بخار کی حالت میں ڈاکٹر کے پاس لے جایا جا رہا تھا۔ بی بی سی کے معروف صحافی عارف وقار کے جسم پر آج بھی برچھے کا نشان موجود ہے۔ وقار انبالوی کو کس بات کی سزا دی گئی تھی؟۔انہیں اس بات کی سزا دی گئی کہ جب وہ 1939 میں احسان اخبار کے ایڈیٹر بنے' تو انہوں نے اخبار میں مسلم لیگ اور قائداعظم کی وکالت کرنے کا ایک نیا باب کیوں رقم کیا۔ اس بات پر مسلم لیگ کے وحشی دشمن مزید بھڑک اٹھے کہ مارچ 1940 کے جلسے کیلئے جب قائداعظم لاہور میں تھے، تو وقار انبالوی کی دعوت پر قائداعظم ایم اے جناح نے آج کے دن 21 مارچ 1940کو احسان اخبارکا دورہ کرتے ہوئے برصغیر میں پہلی بار "احسان" میں ٹیلی پرنٹر کا افتتاح کیا تھا،جس کی وجہ سے اس اخبار کی مانگ اور بھی بڑھ گئی۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کے اخبار سیاست اور انقلاب ‘احسان کی پالیسیوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ لیکن وقار انبالوی کی ادارت میں "احسان اخبار" مسلم لیگ کی بھرپور ترجمانی کرنے اور قائد اعظم ایم اے جناح کے افکار کو عوام تک پہنچانے میں سر فہرست تھا۔ کیا ہمیں یاد ہے کہ آخر مسلم لیگ اور قائداعظم کے افکار کیا تھے؟ جس کیلئے اُس وقت کے حق پرست صحافی،حق پسند عالم،حق پرست سیاستدان اور باکردار تاجر قائداعظم کے ہمنوا ہوگئے تھے؟۔
مسلم لیگ اور قائداعظم کے افکار یہ تھے کہ مسلمانوں کو اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے ایک ایسی آزاد فضا میسر آجائے جہاں اُنہیں ترقی کیلئے کوئی مشکلات نہ اٹھانی پڑیں۔۔۔جہاں اُن کی عزتیں، اُن کی دولت، اُن کی آزادی پر کوئی پابندی نہ ہو۔ اُن کے گھربار محفوظ ہوں۔۔۔23 مارچ 1940 کی تقریر کے مطابق قائداعظم ایک ایسے سماج کی تشکیل چاہتے تھے جہاں ہم وہ سب ایک دوسرے کیساتھ نہ کریں۔جو ہندوستان میں ایک طبقہ مسلمانوں کیساتھ کیا کرتا تھا!۔۔1947 کے آغاز ِسفر میں‘ ہماری منزل ایک ایسا ہی سماج تھا۔۔۔ یہ ہم پھر کہاں کھو گئے؟۔
طاقت کا عدم توازن،غربت،ناخواندگی اورسماجی عدم مساوات‘ بھلا اس سب کا کسی مہذب اور ترقی کی چاہ رکھنے والے سماج میں کوئی کام ہوتا ہے؟۔سماج کی وجہ سے ہی کوئی ملک ترقی کرتا اور زوال کا منہ دیکھتا ہے۔ اور اگر پسند ناپسند،تعصبات پر قائم ملکی پالیسیاں سماج کے ہی تانے بانے بکھیرنے کا باعث بن جایا کریں تو پھر کوئی کیا کرے!! ایسے میں پھر اچھرہ، سیالکوٹ ،جڑانوالہ، کشمور، تھرپارکر، میرپورخاص، یوحناآباد جیسے واقعات کیوں نہ ہوں؟۔۔جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہم بدنام ہوئے پھرتے ہیں۔۔ ہمارے بزرگوں نے ایک بہترین سماج کی تشکیل کیلئے اپنی جوانیاں،اپنی دولت،اپنے بزرگوں کی سرزمین قربان کردی تھی۔۔۔اور ہمیں اگست 1947میں ایک بہترین پاکستانی سماج دیا تھا۔ ہم مگر اپنے بچوں کو وراثت میں کیا سونپ کر جائیں گے؟۔۔۔سونپو گے اپنے بعد وراثت میں کیا مجھے۔۔۔۔بچے کا یہ سوال ہے گونگے سماج سے۔
سجاد پیرزادہ لاہور میں مقیم سینئر صحافی، محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ چین اور بھارت میں بھی صحافتی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل میڈیا فورم فار پیس اینڈ ہارمونی کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان سے sajjadpeerzada1@hotmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔