مُنفرد دُھنوں کے خالق موسیقار نثار بزمی کوبچھڑے 18 برس بیت گئے
نیئرہ نور،عالمگیر،طاہرہ سید اورحمیرا چنا سمیت کئی گلوکاروں کو فلمی دنیا میں متعارف کرایا

Stay tuned with 24 News HD Android App

(ایم وقار) مُنفرد دُھنوں کے خالق نامورموسیقارنثاربزمی کو بچھڑے18 سال کا عرصہ بیت گیامگران کی تخلیق کردہ دھنیں انہیں آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
یکم دسمبر1925 ءکو بمبئی کے مضافاتی علاقےجل گاﺅں ضلع کاندیش میں پیدا ہونے والے نثاربزمی کاپورانام سیدنثاراحمدتھا،خاندان میں کسی کا بھی موسیقی سے دور دورتک کوئی تعلق نہیں تھامگرنثاربزمی بچپن سے ہی مشہوربھارتی موسیقار امان علی خان سے متاثر تھے اورانہیں کی رفاقت کی وجہ سے 13سال کی عمر میں ہی بہت سے راگوں پر عبور حاصل کرلیا تھا۔
نثاربزمی نے فنی سفر کا آغاز1944ء میں بمبئی ریڈیو کے ڈرامے "نادر شاہ درانی" کی موسیقی ترتیب دے کر کیاجس کے سارے گانے ہی مقبول ہوئے تھے اوران کی شہرت چاروں طرف پھیل گئی،اس ڈرامے کی وجہ سے ان کا نام فلم انڈسٹری تک پہنچا۔
انہوں نے چندسال ریڈیو پرمیوزک کمپوزرکی حیثیت سے کام کیا جبکہ بطورموسیقار ان کی 1946ءمیں ریلیز ہونےوالی فلم”جمناپار“تھی جس کے ڈائریکٹر اے آر زمیندار تھے،اس کے بعد وہ اس شعبے میں آگے بڑھتے چلے گئے اور اگلے بارہ برسوں میں چالیس بھارتی فلموں کی موسیقی دی اور وہاں کے صف اول کے گلوکاروں نے ان کی کمپوز کردہ دھنوں پر گانے گائے جن میں محمد رفیع ،لتا منگیشگر ، آشا بھوسلے،شمشاد بیگم،سمن کلیان پوری، مہندر کپوراورمناڈے شامل ہیں، فلم ” کھوج“ میں ان کے محمدرفیع کی آواز میں کمپوز کئے ہوئے گانے ”چاند کا دل ٹوٹ گیا رونے لگے ہیں ستارے“ نے دھوم مچائی تھی ۔
ہندوستان میں وہ صف اول کے موسیقاروں میں شامل ہوچکے تھے اورلکشمی کانت پیارے لال ان کےساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا کرتے تھے،اس کے علاوہ انہوں نے ہی کلیان جی آنند جی کی جوڑی کو سازندوں کی جگہ سے اُٹھا کر موسیقاروں کی صف میں شامل کروایا تھا۔
نثاربزمی پندرہ سال تک ہندوستانی فلم انڈسٹری میں کام کرنے کے بعدفضل احمد فضلی کے کہنے پر 1962ءمیں بھارت میں بھریا میلہ چھوڑ کر پاکستان آ گئے،ان کے چار بھائی اور عزیزواقارب پہلے ہی پاکستان آچکے تھے،فلم ساز،ہدایتکار اور شاعر فضل احمد فضلی سے ان کی دوستی بمبئی سے تھی جن کے کہنے پر انہوں نے بھارت کو چھوڑا۔
پاکستان میں اس وقت جن موسیقاروں کا نام گونج رہا تھاان میں خواجہ خورشید انور،ماسٹر عنایت حسین ،رشید عطرے،فیروزنظامی،حسن لطیف،سہیل رعنااورماسٹرعبداللہ شامل تھے،اس کے علاوہ منظوراشرف،دیبو،ناشاد،سلیم اقبال ،لال محمد اقبال ،رحمان ورما،بخشی وزیر،وزیر افضل ،باباجی اے چشتی اور خلیل احمد بھی معروف موسیقاروں میں شامل تھے۔ان نامور لوگوں کی موجودگی میں وہ انڈسٹری میں داخل ہوئے،اس دوران بڑے نشیب وفراز آئے ،کافی جدوجہد کے بعد انہیں ایک فلم”ہیڈ کانسٹیبل“ مل گئی جس میں انہوں نے نورجہاں کی آوازمیں ایک المیہ گیت گوایاجس کے بول تھے ”اے کاش میرے لب پہ تیرا نام نہ آتا“جو اپنے دور کا مقبول نغمہ تھا۔
ایک سال بعد فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے “کی موسیقی دینے کےلئے ان کو سائن کیا گیااوریہ فلم ان کے لئے اچھی فال ثابت ہوئی جس کا مشہور گانا تھا”محبت میں تیرے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے“جسے نورجہاں اور احمد رشدی نے گایا تھا،اسی فلم کی ایک مشہور غزل”ہو تمنا اور کیا جانِ تمنا آپ ہیں“نورجہاں نے گائی جبکہ ایک اور منفرد گانا”بہار کے دن آئے سنگھار کے دن آئے “ تھا،یہ نغماتی فلم سپرہٹ ثابت ہوئی۔
نثار بزمی گانا ریکارڈ کرتے وقت کسی بھی کمی کو نظر انداز نہیں کرتے تھے اور جب تک ان کی تسلی نہ ہوجاتی ریکارڈنگ فائنل نہیں کرتے تھے جس کی مثال اسی فلم کا ایک گانا ”آئے آئے پیار کے دن آئے“ہے،نورجہاں کے اس گانے کی ریکارڈنگ کے وقت پاکستان کے چوٹی کے موسیقار رشید عطرے ،ماسٹر عنایت حسین اور خواجہ خورشید انور ریکارڈنگ ہال میں موجود تھے،یہ گانانثار بزمی کی تسلی کے مطابق ریکارڈ نہیں ہو رہا تھا اور وہ بار بار اس کی ری ٹیک کراتے رہے حتیٰ کہ گانے کی 19ری ٹیک کے بعد گانا ریکارڈ ہوا۔
نثاربزمی کی ایک فلم ”لاکھوں میں ایک“کے گانوں نے بڑی دھوم مچائی،نورجہاں کی آواز میں”چلو اچھا ہوا تم بھول گئے“اور”بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا“آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتا ہے۔
پاکستان می ایک طرف انہوں نے نورجہاں کی آواز میں”پیار کر کے ہم بہت پچھتائے“جیسے لازوال گانے تخلیق کئے تو دوسری طرف رونا لیلیٰ کی آواز کو اپنے گانوں میں اس طرح استعمال کیا کہ رونا لیلیٰ کی تقدیر بدل کر رکھ دی جس کے گائے ہوئے گانے ” کاٹے نہ کٹے رے رتیاں سیاں انتظار میں“اور ” دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں“سن کرنثار بزمی کی فنی مہارت کا پتہ چلتا ہے، رونا لیلیٰ کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے میں نثار بزمی کا بڑا ہاتھ ہے۔
نثار بزمی کو کئی نئے گلوکاروں کو متعارف کرانے کا کریڈٹ جاتا ہے۔انہوں نے نیرہ نور،عالمگیر، طاہرہ سید اورحمیرا چنا کو فلمی دنیا میں روشناس کرایا،انہوں نے فن موسیقی پرایک کتاب”پھر سازصدا خاموش ہوا“بھی لکھی تھی جس میں ان کا شاعرانہ کلام بھی شامل تھا۔
فلم ”عندلیب“میں انہوں نے جو گانے کمپوز کئے اپنے زمانے میں ان گانوں کی گونج چاروں طرف سنائی دیتی تھی،نورجہاں اوراحمدرشدی کی آوازمیں”میرے دل کی محفل سجادینے والے تیرا شکریہ”اور”کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے“جسے نورجہاں اوراحمد رشدی نے الگ الگ گایا تھا آج بھی یہ سماعتوں میں شہد گھولتے ہیں۔
نثار بزمی کو اپنے دور کا شاہ خرچ موسیقاربھی کہا جاتا تھا جو گانوں میں زیادہ سے زیادہ آرکسٹرا کے استعمال کو ترجیح دیتے تھے۔فلم”امراؤ جان ادا“کے ایک گانے”مانے نہ بیری بلمامیرا من تڑپائے“میں انہوں نے 50سے زائد آرکسٹرا کا استعمال کیا تھا،وہ اپنی دھنوں میں زیادہ تر تاروں والے ساز استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے گیتوں میں ایک خاص کشش ہوتی تھی۔
نغمہ نگار مسرور انور سے ان کا ساتھ فلم ”لاکھوں میں ایک“سے شروع ہواجس کے بعد اس جوڑی نے بے شمار مقبول گیت تخلیق کئے،مسرور انور کے علاوہ انہوں نے فیاض ہاشمی ،تنویرنقوی،فضل کریم فضلی،تسلیم فاضلی ،کلیم عثمانی،قتیل شفائی اورسیف الدین سیف جیسے شاعروں کے لکھے ہوئے کلام پربھی بہت خوبصورت گیت کمپوز کئے۔
فلم”لاکھوں میں ایک“کا بھجن”من مندرکے دیوتا“اور”ناگ منی“کا بھجن”پگ لاگے داسی“ایسے کمال تھے جنہوں نے بھارت کے بڑے بڑے موسیقاروں کوورطہِ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں انہوں نے بڑے لازوال گیت پیش کئے مگر ایک وقت ایسا بھی آیا تھاکہ ان میں رنجشیں پیدا ہوگئیں، کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کا رونا لیلیٰ کواس طرح پروموٹ کرنا اور نئے گلوکاروں کوآگے لاناملکہ ترنم نورجہاں کوناپسندتھا،اس کے بعدایک لابی ان کےخلاف اُٹھ کھڑی ہوئی اور یہاں تک نوبت آپہنچی کہ گلوکاروں نے فیصلہ کر لیاکہ کوئی بھی گلوکارنثار بزمی کے ساتھ کام نہیں کرے گا۔
انہی دنوں علی سفیان آفاقی اپنی فلم ”جاگیر“بنا رہے تھے جس کے موسیقارنثاربزمی تھے،اس فلم کا ایک گانااحمدرشدی نے گانا تھا جسے ندیم اوردیبا پر فلم بند کیا جانا تھا،بائیکاٹ کی وجہ سے احمد رشدی کو بھی منع کردیا گیاجس پرنثار بزمی نے علی سفیان آفاقی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا موسیقار بدل لیں مگر انہوں نے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ موسیقار تو نہیں بدلتے گلوکاربدل لیتے ہیں اورکسی نئے گلوکار کو آزماتے ہیں مگر اتنی جلدی نیا گلوکار کیسے آئے گا تونثار بزمی نے کہا اس کی فکر نہ کریں ابھی تھوڑی دیر میں آجائے گا،کچھ دیر بعد عالمگیرنامی لڑکا آ گیاجس کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھاجو گٹار بڑی اچھی بجاتا تھالہٰذا اسے سنا گیاجو معیار پر پورا اترا جس کے بعد اس سے تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا نغمہ ریکارڈ کروایا گیا جس کے بول تھے”ہم چلے تو ہمارے سنگ سنگ نظارے چلے“یہ ایسا نغمہ تھاجس کے ذریعے انہوں نے نہ صرف احمد رشدی کا نعم البدل ڈھونڈ لیا بلکہ اس گانے نے عالمگیر کی قسمت کو چار چاند لگا دیئے ۔
فلم”صائقہ“میں عمدہ موسیقی ترتیب دینے پرنثاربزمی کو پہلے نگارایوارڈ سے نوازا گیاتھاجس میں احمد رشدی اور مالاکا گانا”اے بہاروگواہ رہنا” اورمہدی حسن کی شُہرہ آفاق غزل”اک ستم اورمیری جاں ابھی جاں باقی ہے“شامل تھی۔
نثاربزمی نے اپنے کیریئرمیں 68فلموں کی موسیقی دی جو سب کی سب اردوزبان میں تھیں،ان کی آخری فلم ” ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ“تھی ،ان کی فنی خدمات کوسراہتے ہوئے حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
انہیں المیہ اورطربیہ گیتوں کو کمپوز کرنے میں کمال حاصل تھا،یہ منفرد موسیقار 22مارچ 2007ءکو اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے تھے جن کے تخلیق کردہ فلمی گیت علمی،ادبی ،تہذیبی اور ثقافتی حوالوں سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
ان کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں ایک نام معروف گلوکارتنویرآفریدی کابھی ہے جواپنے استادکے نام اورکام کوآگے لے کربڑھ رہے ہیں،انہوں نے نثاربزمی کی بائیوگرافی"کون یادوں کوزنجیرپہنائے گا"بھی لکھی ہے جس کی آج لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں رونمائی بھی ہورہی ہے۔