ایران نے امریکہ کی مذاکرات کی پیشکش کو دھمکی قرار دیدیا

Mar 23, 2025 | 20:17:PM

(24 نیوز)امریکہ نے اس ماہ کے اوائل میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ارسال کردہ ایک خط میں کہا تھا کہ ایران جوہری مذاکرات شروع کرے یا سخت پابندیوں کے لیے تیار ہو جائے۔

ایران کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بات چیت کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اپنا رویہ بدلے۔ تہران کا موقف ہے کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک امریکہ دباؤ ڈالنے کی اپنی پالیسی میں تبدیلی نہ کر لے۔

ایران کے سرکاری خبررساں ادارے نے اتوار کے روز ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن نئے جوہری معاہدے پر مذاکرات کی دعوت کے جواب کا انتظار کر رہا ہے۔

تہران کو رواں ماہ امریکہ کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت دیا کہ وہ مذاکرات کو نئے سرے سے شروع کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے یا ٹرمپ کی نئی "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی مہم کے تحت سخت پابندیوں کا سامنا کرے گا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے مذاکرات کی اس پیشکش کو 'دھوکہ‘ کہتے ہوئے مسترد کر دیا۔ایران کے وزیر خارجہ نے جمعرات کو کہا کہ تہران ان دھمکیوں اور بات چیت کے حوالے سے جلد جواب دے گا۔

اتوار کے روز عراقچی نے مزید کہا کہ ایران "ضد" میں آ کر مذاکرات کی مخالفت نہیں کر رہا بلکہ یہ تاریخ اور تجربے کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ تہران کے مذاکرات میں حصہ لینے سے پہلے واشنگٹن کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔2015 میں اپنی پہلی مدت کے دوران ٹرمپ نے امریکہ کو ایران اور دنیا کی دیگر بڑی طاقتوں کے درمیان ہوئے ایک کے معاہدے سے الگ کر دیا تھا۔

اس معاہدے میں ایران پر پابندیوں میں نرمی کے بدلے تہران کی جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔

2018 میں ٹرمپ کے اس معاہدے سے دستبردار ہونے اور ایران پر پابندیاں بحال کرنے کے بعد سے ایران نے بھی اس جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اپنے جوہری پروگرام کو بحال کر دیا۔

عراقچی نے کہا کہ 2015 کے معاہدے کو اس کی موجودہ شکل میں بحال کرنا ممکن نہیں۔ یہ ہمارے مفاد میں نہیں ہو گا کیونکہ ہمارا جوہری پروگرام بہت حد تک ترقی کر چکا ہے اور ہم اب ماضی میں واپس نہیں جا سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف کی پابندیوں کے بارے میں بھی ہمارا یہی خیال ہے۔ 2015  کا جوہری معاہدہ اب بھی مذاکرات کی بنیاد اور ایک ڈرافٹ ہو سکتا ہے۔

مغربی طاقتیں ایران پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ 60 فیصد تک خالص یورینیم افزودہ کر کے جوہری ہتھیار حاصل کر رہا ہے۔ یہ اس حد سے بڑھ کر ہے جس کی سویلین پروگرامز کو اجازت ہے۔

تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے اور وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے قول کا احترام کرتا ہے۔

مزید پڑھیں :امریکا کا ’’سکستھ جنریشن ایف 47‘‘ طیارہ بنانے کا اعلان

مزیدخبریں