سائفر کیس کا ٹرائل درست نہیں ہوا، کیس ریمانڈ بیک کر دیا جائے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی استدعا

May 23, 2024 | 19:09:PM

(احتشام کیانی)سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کیخلاف اپیلوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ سے پوچھا تھا کہ کیا ٹرائل درست ہوا،پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا تھا کہ ٹرائل درست ہوا تھا، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہاکہ یہ بالکل درست نہیں ہو گا کہ اس سٹیج پر کہیں کہ ٹرائل شفاف نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ  آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ٹرائل درست نہیں ہوا اور کیس ریمانڈ بیک کر دیا جائے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہاکہ جی، میں یہی کہہ رہا ہوں، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اب سٹیج پر ہم کیسے میرٹس کو دیکھے بغیر کیس واپس ٹرائل کورٹ کو بھیج دیں؟ 

اسلام آبادہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت شروع ہوئی،چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی،ایف آئی اے  پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ حامد علی شاہ نے آج والدہ کو اسلام آباد شفٹ کرنا تھا،شاہ صاحب پیش نہیں ہو سکتے، میں دلائل شروع کرونگا،ذوالفقار عباس نقوی نے کہاکہ گزشتہ روز یہ تاثر گیا کہ شاید پراسیکیوشن تاخیر کرنا چاہ رہی ہے،ہم تاخیر نہیں کرنا چاہتے، میں دلائل شروع کر رہا ہوں۔

دونوں سٹیٹ کونسلز کے بیان حلفی عدالت میں جمع کروا دیئے گئے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے دونوں سٹیٹ کونسلز کو عدالت میں طلب کر لیا،چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ دسٹیٹ کونسلز نے پہلے کسی سزائے موت کے کیس کا ٹرائل کیا ہے؟ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہاکہ سٹیٹ کونسل کے طور پر نہیں کیا، اپنی وکالت میں کیا ہے،ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہاکہ دونوں سٹیٹ کونسلز کے بیان حلفی عدالتی ریکارڈ پر نہیں لائے جا سکتے،چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کوئی بات نہیں، ہم ان کو ختم ہی کر دیتے ہیں،ذوالفقار عباس نقوی نے کہاکہ عدالت کے سامنے اس وقت دو نکات زیرسماعت ہیں،ایک ٹرائل شفاف نہ ہونا اور دوسرا کیس کے میرٹس کا معاملہ ہے،اگر عدالت قرار دیتی ہے کہ ٹرائل شفاف نہیں تھا تو اسکا نتیجہ مختلف ہو گا۔

چیف جسٹس اسلام آبادنے کہاکہ ٹرائل شفاف نہ ہونے کا نکتہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکیل نے اٹھایا تھا،پراسیکیوشن نے کہیں نہیں کہا کہ ٹرائل درست نہیں تھا،عدالت نے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ سے پوچھا تھا کہ کیا ٹرائل درست ہوا،پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا تھا کہ ٹرائل درست ہوا تھا، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہاکہ یہ بالکل درست نہیں ہو گا کہ اس سٹیج پر کہیں کہ ٹرائل شفاف نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ  آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ٹرائل درست نہیں ہوا اور کیس ریمانڈ بیک کر دیا جائے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہاکہ جی، میں یہی کہہ رہا ہوں، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اب سٹیج پر ہم کیسے میرٹس کو دیکھے بغیر کیس واپس ٹرائل کورٹ کو بھیج دیں؟ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالتی اوقات ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈر کے تحت ریگولیٹ ہوتے ہیں نا؟ عدالتی اوقات صبح 9 سے ساڑھے 3 بجے تک ہوتے ہیں،کیا ٹرائل کورٹ عدالتی اوقات کے بعد بھی کارروائی چلا سکتی ہے؟اگر ٹرائل کورٹ عدالتی اوقات کے بعد کارروائی چلائے تو کیا اثر ہو گا؟ عدالتی کارروائی اڈیالہ جیل میں تھی تو جیل سماعت پر عدالتی اوقات کا کیا اثر ہو گا؟ ان دنوں اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی کے کئی ٹرائل چل رہے تھے؟ 

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا  کہ جیل ٹرائلز میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا تھا؟چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ تسلی سے اس پر بحث کریں نہ آپ رش میں ہیں اور نہ ہم رش میں ہیں،پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہاکہ پہلے مرحلے میں 9 سماعتیں ہوئیں، جن میں سے 7 بار سماعت ملتوی کی گئی،دوسرے مرحلے میں 19 بار ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی،ملزمان کی جانب سے بار بار تاخیری حربے استعمال کئے جاتے رہے، گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے تھے مگر جرح نہ ہو سکی تھی،ملزمان کے وکلا کورٹ کی سماعتوں میں وقت پر نہیں آتے تھے،ٹرائل کے دوران 55 مختلف درخواستیں دی گئیں، عدالت نے استفسار کیا کہ تیسرے مرحلے میں کتنی درخواستیں دائر ہوئی ہیں؟پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہاکہ 50 فیصد درخواستیں تیسرے مرحلے میں دائر ہوئی تھیں۔

سلمان صفدر نے کہاکہ عدالتی اوقات ختم ہونے کے بعد کسی نئے گواہ کا بیان قلمبند نہیں کیا جا سکتا،اگر کسی گواہ کا بیان قلمبند ہو رہا ہو تو وہ عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد بھی مکمل ہوتا ہے،عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ مقدمہ کا ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر چلایا گیا؟پراسیکیوٹر نے کہاکہ اس عدالت کا روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل سے متعلق بھی فیصلہ موجود ہے،جسٹس گل حسن اورنگزیب  نے کہاکہ میں گزشتہ 25 سال سے آپکو وکالت میں دیکھ رہا ہوں، آپکو بھی پتہ ہے کہ ٹرائل میں کس طرح تاریخیں دی جاتی ہیں،پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہائیکورٹ رولز میں بھی روزانہ سماعتوں سے متعلق کہا گیا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اس پر عملدرآمد نہیں کر رہے اور ایک کیس میں فالو ہو تو پھر سوال اٹھتا ہے،سوال اٹھتا ہے کہ باقی کیسز میں نہیں کر رہے تو اس میں کیا خاص ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ  مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ٹرائل میں اس قدر جلدی کیا تھی،سزائے موت کا کیس تھا اور تین ہفتوں میں مکمل کر لیا گیا،ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہاکہ اس ہائیکورٹ کی ڈائریکشن تھی اس لیے کیس جلد مکمل کیا گیا،جسٹس گل حسن نے کہاکہ وہ فیصلہ تو سپریم کورٹ سے کالعدم ہو گیا،ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہاکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ٹرائل جلد مکمل کرنے کی ڈائریکشن دی،سپریم کورٹ نے لکھا کہ اگر ملزمان تاخیر کی کوشش کریں تو ضمانت خارج کرنے کی درخواست دی جا سکتی ہے۔

پراسیکیوٹر نے جلد ٹرائل پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جلد از جلد انصاف تاخیر سے انصاف کرنے سے بہتر ہے، ملزمان کے وکلا نے ٹرائل کورٹ میں فضول درخواستیں دائر کیں، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ملزمان کے وکلا تاخیر کر رہے تھے اور سرکاری وکیل مقرر کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا؟ پراسیکیوٹر نے جی بالکل، میں یہی کہہ رہا ہوں، پی ٹی آئی وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ  عدالت نے آدھے آدھے گھنٹے کے دلائل دینے کا کہا تھا پراسیکیوٹر لمبا کر رہے ہیں،ہم تو اب میرٹ پر اپنے دلائل دے چکے تھے، یہ پھر ٹرائل اور التواء پر لے کر جا رہے ہیں، جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ سلمان صاحب، ہم نے پراسیکیوٹر صاحب کو زبردستی دلائل دینے کا کہا ہے،پراسیکیوشن کی طرف سے آج التوا کی درخواست دائر کی گئی تھی، ہم آنکھیں بند کر کے کسی کی والدہ کی بیماری پر التوا دے دیتے ہیں، پراسیکیوٹر صاحب کو دلائل دینے دیں اور درمیان میں مداخلت نہ کریں،پراسیکیوٹر نے کہاکہ اگر عدالت نتیجے پر پہنچے کہ فیئر ٹرائل نہیں ہوا تو کیس ریمانڈ بیک کیا جائے گا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر پراسیکیوشن کا کوئی کیس ہی نہ بنتا ہو تو پھر کیا ہو گا؟آپ کہہ رہے ہیں کہ ٹرائل شفاف نہ ہو تو ہائیکورٹ میرٹ پر نہیں جا سکتی؟جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر ٹرائل شفاف نہ ہو تو ریمانڈ بیک کرنا لازم ہے؟آپ اپنی اس دلیل کے حق میں عدالتی نظیریں دیدیں۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سماعت 27 مئی تک ملتوی کرنے کی استدعا کر دی،وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہاکہ آج دلائل مکمل ہونے تھے، عدالت سماعت ملتوی نہ کرے،جسٹس گل حسن نے پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ نقوی صاحب عدالت کو بتائیں کہ آپکا پلان کیا ہے؟آپ بتا دیں مزید ایک ہفتہ چاہیے یا دس دن؟ آپ بتائیں کیونکہ ہمارا بھی شیڈول ہوتا ہے، یہ عوام کا وقت ہے، ہم نے اس وقت مقدمات کے فیصلے لکھنے ہوتے ہیں، یہ کیس کئی دن پہلے 2 گھنٹے میں مکمل ہونا تھا،وہ دو گھنٹے کا وقت غیرمعینہ مدت تک چلا گیا ہے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہاکہ مجھے دلائل مکمل کرنے کیلئے مزید ایک گھنٹہ چاہئے  ہو گا، سلمان صفدر نے کہاکہ مجھے تو جتنا وقت کہیں گے اس میں ختم کر لوں گا،چیف جسٹس نے کہاکہ ہم بھی سمجھ رہے ہیں کہ کیس تاخیر کا شکار ہو رہا ہے، ہم آئندہ تاریخ پر ریگولر ڈویژن بنچ منسوخ کر کے یہ کیس سنیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: روپے کی اونچی پرواز  ڈالر کے بعد درہم اور پاؤنڈ بھی سستا

مزیدخبریں