سپریم کورٹ: پنجاب حکومت سے سیاسی مداخلت پر پولیس افسران کے تبادلوں پر جواب طلب

Nov 23, 2022 | 11:04:AM
سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت سے سیاسی مداخلت پر پولیس افسران کے تبادلوں پر جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے درخواست گزار کی استدعا پر مقدمے کا دائرہ وفاق اور دیگر صوبوں تک بڑھاتے ہوئے وفاق اور صوبوں کو 2 ہفتے میں جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد کے سابق آئی جی پڑھے لکھے اور ڈیسنٹ افسر تھے، انہوں نے سندھ ہاؤس پر حملے کا معاملہ بڑے اچھے انداز میں ڈیل کیا، وہ بھی تبدیل ہوگئے
کیپشن: سپریم کورٹ پاکستان
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت سے سیاسی مداخلت پر پولیس افسران کے تبادلوں پر جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے درخواست گزار کی استدعا پر مقدمے کا دائرہ وفاق اور دیگر صوبوں تک بڑھاتے ہوئے وفاق اور صوبوں کو 2 ہفتے میں جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد کے سابق آئی جی پڑھے لکھے اور ڈیسنٹ افسر تھے، انہوں نے سندھ ہاؤس پر حملے کا معاملہ بڑے اچھے انداز میں ڈیل کیا، وہ بھی تبدیل ہوگئے۔

 چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے محکمہ پولیس پنجاب میں سیاسی مداخلت پر تبادلوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے وفاق اور صوبوں سے گزشتہ 8 سال میں محکمہ پولیس میں ٹرانسفر پوسٹنگ کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران کے تسلسل کے ساتھ تبادلوں سے پولیس کمانڈ اور کارکردگی سے فرق پڑتاہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ڈی پی او لیہ کا تبادلہ لوکل سیاسیتدان کی مداخلت پر ایوان وزیر اعلی سے ہوا، پولیس نے مزاحمت کی لیکن بلا آخر خاتون ڈی پی او لیہ نے چارج چھوڑ دیا، ڈیٹا کے مطابق پنجاب میں ڈی پی او کی اوسط ٹرم پانچ ماہ ہے، ڈیٹا کے مطابق چار سالوں میں پنجاب میں 268 ڈی پی اوز کے تبادلے ہوئے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ یہ اعدادوشمار آپ نے کہاں سے حاصل کیے۔ اس پر وکیل نے بتایا کہ سی پی او آفس سے حاصل کئے ہیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پولیس میں سیاسی تبادلوں سے کریمینل جسٹس سسٹم کی کارکردگی پر فرق پڑتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل درخواست گزار کے مطابق یہ معاملہ پنجاب تک محدود نہیں۔ عدالت نے سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کر دی۔