پاک امریکا فضائی حدود کے استعمال کا معاہدہ پہلے سے موجود ،ریویو کرنا چاہیے،پروگرام ڈی این اے میں تجزیہ کا رو ں کی رائے
Stay tuned with 24 News HD Android App
( 24نیوز) پاکستان امریکا کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا ،اس حوالے سے عنقریب ایک معاہدہ ہونے جا رہا ہے، امریکی میڈیا کی خبر پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے فوری رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہونے جا رہا۔
24 نیوز کے پروگرام ڈی این اے میں گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ خبر سے واضح ہے کہ پاکستان نے بھی ایسے ایم او یو پر دستخط کی خواہش ظاہر کی ہے یہ بھی کہاگیا ہے کہ امریکی فوج افغانستان میں خفیہ معلومات کے لئے پاکستان کی فضائی حدود بغیر کسی معاہدے کے بھی استعمال کر سکتا ہے۔
سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ ماضی میں دو ائر بیس امریکا کے زیر استعمال تھے جن کے بارے میں قوم کو دو برس بعد معلوم ہوا۔ قوم کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے ۔ حکومت کو تمام تر صورتحال پر پارلیمنٹ میں بحث کرکے متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان فضائی حدود کے استعمال کا معاہدہ پہلے سے موجود ہے۔اس کو ریویو کرنا ہے۔
پی جے میر کا کہنا تھا خبر رساں ادارے کی جانب سے یہ فیلر چھوڑا گیا ہے تاکہ پاکستان میں ردعمل دیکھا جا سکے ۔ بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ امریکا تاجکستان اور ازبکستان کی فضائی حدود استعمال کر سکتا ہے۔ اگر وزیر اعظم نے کسی دباؤ کے نتیجے میں امریکا کو فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دی تو ان کے سخت موقف کے بعد قوم کے لئے یہ ناقابل قبول ہو گا ۔
جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ امریکا فضائی حدود حاصل کرنے کے لئےہم پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ آئی ایم ایف ، فیٹف ، عالمی بینک اس کے ذرائع ہیں ۔ سلیم بخاری نے کہا کہ سی این این کی خبر کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ادارہ پینٹا گون اور سی آئی اے کا ایک اہم ہتھیار ہے ۔ڈی این اے کے تجزیہ کاروں نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور پاکستان میں مہنگائی کے طوفان پر عوام اور اپوزیشن کے رد عمل پر بھی گفتگو کی ۔
سلیم بخاری کا کہنا تھا جن لوگوں نے یہ سمجھا کہ آئی ایم ایف ہر مرض کی دوا ہے انہیں ہمیشہ دھوکہ ہوا ۔ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد سے مہنگائی کا مزید طوفان آئے گا اور عام آدمی کی چیخیں نکلیں گی۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈالر کو مرکزی بینک کے ذریعے کنٹرول کرنے کی بجائے اوپن مارکیٹ میں اس کی قیمت کا تعین ممکن بنائے۔ سرکلر ڈیبٹ کم کرے اور اداروں کی نجکاری یقینی بنائے۔ پی جے میر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور قرض دینے والے اداروں کی شرائط سخت اس لئےبھی ہیں کہ ہمارے ہاں ہر سیاست دان دوسرے کو کرپٹ قرار دے رہا ہے۔ کرپشن کی داستانیں عام ہیں۔
پینل نے کالعدم مذہبی تنظیم تحریک لبیک کے اسلام آباد کی جانب مارچ اور مذاکرات پر بھی گفتگو کی۔ سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کو مذاکرات ہی کرنے ہوتے ہیں تو پہلے معاملات کو اس نہج تک کیوں پہنچایا جاتا ہے۔ پہلے مقدمات درج کرکے گرفتار کر لیتے ہیں پھر پر تشدد کاروائیوں کو روکنے کے لئے مذاکرات کرتے ہیں۔ شرائط تسلیم کرتے ہیں مگر ان شرائط پر عمل درآمد نہیں کرتے ۔ افتخار احمد کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر مذہبی امور نور الحق قادری مذاکرات کے لئے لاہور پہنچے ہیں۔ تاہم ابھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ۔ پینل نے جسٹس رضا باقر کی جانب سے عدلیہ کو انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب پر بھی گفتگو کی ۔ سلیم بخاری نے کہا کہ عدلیہ کو دباؤ یا مراعات کے ذریعے پسندیدہ فیصلوں پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔جو ادارے عدلیہ پر دباؤ کے مرتکب ہوتے ہیں وہ نظام انصاف میں رکاوٹ ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں:ورلڈکپ میں بھارت کو ہرانے پر پاکستانی کرکٹرز کی لاٹر ی نکل پڑے گی، مگر کیسے؟ جا نیے