عام انتخابات:اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کررہا ہے تو آرٹیکل 6 لگے گا:چیف جسٹس

Oct 23, 2023 | 12:35:PM

(امانت گشکوری)سپریم کورٹ آف پاکستان میں ملک میں عام انتخابات کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ نہیں دی تو ہم کیا کریں؟کیا ہم صدر مملکت کو تاریخ نہ دینے پر نوٹس دیں؟صدر مملکت کیخلاف ہم کیا کرسکتے ہیں،اپنی رٹ بحال کرنے کیلئے حکم جاری کرسکتے ہیں،اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کررہا ہے تو آرٹیکل 6 لگے گا۔

چیف جسٹس چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ میں جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ بھی میں شامل ہیں۔ درخواست گزار ایڈووکیٹ عابد زبیری روسٹرم پر آگئے۔

درخواستگزار عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ہم نے 5 اگست کو مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ چیلنج کیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست کب دائر کی اور اب تک لگی کیوں نہیں؟ عابد زبیری نے کہا کہ اگست کی ہی درخواست تھی مگر کیس فکس نہیں ہوا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں کورٹ اسٹاف نے نوٹ دیا ہے کہ آپ نے کوئی جلد سماعت کی درخواست نہیں دی، یہ ایک ارجنٹ معاملہ ہونا چاہیئے تھا۔

وکیل خواجہ احمد حسین بولے کہ کچھ نئی درخواستیں دائر کی گئی ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آخری آرڈر کے مطابق اٹارنی جنرل کے دلائل چل رہے تھے،پہلے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو جائیں تو پھر کیس کو چلانے کے طریقہ کار کو دیکھیں گے، وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل اس کیس کے فیصلے سے پہلے ہی شروع کر دیا گیا ہے،  جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ پہلے اٹارنی جنرل کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر سب کو سنیں گے۔

ضرورپڑھیں:چئیرمین پی ٹی آئی کو ایکسرسائز سائیکل فراہم ہوگئی 

چیف جسٹس پاکستان  بولے کہ آپ ہمیں کیا دستاویزات دے رہے ہیں،وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ میں 2017 کی مردم شماری کی دستاویزات دے رہا ہوں، چیف جسٹس پاکستان  نے استفسار کیا کہ 2017 کے بعد مردم شماری کا آغاز کرنے میں کتنے سال لگے؟2021 میں مردم شماری کا دوبارہ آغاز ہوا، آپ دوسری بار غلط بیانی کرر ہے ہیں،آپ عدالت کو غلط حقائق بتا رہے ہیں،ایک چیز منسوخ ہوگئی تو اسکا ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟2017 میں فیصلہ ہوا تو مردم شماری کا عمل 6 سال بعد کیوں شروع نہ ہوا؟کس نے مردم شماری کا آغاز تاخیر سے کیا؟

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ حقائق پر مقدمہ نہیں چلارہے ہیں،بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا تھے،عابد زبیری بولے کہ اپریل 2022 میں ایک حکومت ختم ہوئی، چیف جسٹس بولے کہ آپ کو اتنی تشویش تھی تو 2017 سے 2021 تک درخواست دائر کیوں نہیں کی،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ جو بھی مردم شماری میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے،کیا آپ چاہتے ہیں کہ انتخابات کروائے جائیں، عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی بالکل ہم اتنی ہی بات چاہتے ہیں۔

سماعت کے دوران گرما گرمی 

 چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دئیے کہ آپ کی ساری استدعاء مردم شماری کے بارے میں ہے،کیا آپ آئین کے آرٹیکل 224 کی عملداری مانگ رہے ہیں ؟عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت سے میری یہی استدعا ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ90 دن کب پورے ہورہے ہیں، عابد زبیری بولے کہ 3 نومبر 2023 کو 90 دن پورے ہوجائیں گے، چیف جسٹس نے پھر پوچھا کہ اگر آج ہم 90 دنوں میں انتخابات کا حکم دیں تو کیا انتخابات ہو سکتے ہیں؟عابد زبیری نے جواب دیا کہ اگر آج عدالت حکم دے تو 3 نومبر کو انتخابات نہیں ہوسکتے، چیف جسٹس پاکستان بولے کہ پھر اپنی درخواست میں ترامیم کرلیں،صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ نہیں دی تو ہم کیا کریں؟کیا ہم صدر مملکت کو تاریخ نہ دینے پر نوٹس دیں؟صدر مملکت کیخلاف ہم کیا کرسکتے ہیں،اپنی رٹ بحال کرنے کیلئے حکم جاری کرسکتے ہیں،اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کررہا ہے تو آرٹیکل 6 لگے گا، لوکل گورنمنٹ انتخابات کیس میں سپریم کورٹ کے کہنے پر مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا،ہم تاریخ کو فراموش نہیں کر سکتے،گزشتہ حکومت نے مردم شماری کرانے کے فیصلے کیلئے چار سال لگا دیئے۔

صدر سپریم کورٹ بار  نے کہا ہے کہ صدر مملکت کو استثنی حاصل ہے، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں انتخابات کے احکامات کا حکم بھی اسی عدالت نے دیا،چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمدرآمد نہیں ہوا لیکن کیا دو صوبوں میں انتخابات کا کیس زیر سماعت ہے؟آپ وکیل ہیں لے آئیں ناں کوئی توہین عدالت کی درخواست، کس نے روکا ہے؟جب میں بلوچستان کا چیف جسٹس تھا صرف بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، تاریخ دینے کے حوالے سے قانون میں ترمیم ہوگئی تھی،کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم آئین کے آرٹیکل 48 سے متصادم ہے؟الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ کیا آپ انتخابات میں تاخیر چاہتے ہیں؟انتخابات تو ہونے ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صدر مملکت کو ایک وکیل نے خط لکھا اس کا کیا جواب ملا؟ درخواست گزار منیر احمد بولے کہ صدر مملکت نے کوئی جواب نہیں دیا،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ آپ تو تاخیر کا ذمہ دار صدر مملکت کو ٹھہرا رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا ایک سے ڈیرھ گھنٹا لوں گا، آئینی ترمیم اس لیے کی گئی تھی کہ دہشتگرد آرمی ایکٹ کے دائرے میں نہیں تھے،دہشتگردوں کے فوجی ٹرائل کیلئے 21ویں آئینی ترمیم کی گئی،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے ہیں کہ دہشتگردوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیلئے ترمیم ضروری تھی تو سویلینز کیلئے کیوں نہیں؟ کیا اکیسویں آئینی ترمیم کے وقت بھی ملزمان نے فوجیوں یا فوجی تنصیبات پر حملہ کیا تھا؟اٹارنی جنرل بولے کہ اکیسویں آئینی ترمیم میں ممنوعہ علاقوں پر حملے کرنے والوں کے فوجی ٹرائل کی شق شامل کی گئی، جسٹس اعجازالاحسن نے پھر استفسار کیا کہ جو ٹرائل فوجی افسران کو قابل قبول نہیں تھا وہ دوسروں کا کیسے کیا گیا؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوجی عدالتوں کی ترمیم کے کیس میں تعصب کا معاملہ ہی اٹھایا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ  دستاویزات دکھا دیں جس میں صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ دی ہو،درخواست گزار منیر احمد بولے کہ صدر مملکت کا خط الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ صدر کے خلاف احکامات چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی،صدر مملکت نے آرڈر کیا ہوتا تو میڈیا کو جاری کرتے،آپ کہہ دیں کہ عدالت انتخابات کروانے کا حکم دے،90 دنوں میں تو انتخابات نہیں ہوسکتے،الیکشن چاہتے ہیں تو سیدھی بات کریں سب اپنی اپنی بات کرتے ہیں،وکیل درخواست گزارانور منصور  بولے کہ ہم جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں،جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ سویلینز آرمی ایکٹ کے دائرے میں کیسے آتے ہیں؟ 

واضح رہے کہ ملک میں 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے سپریم کورٹ بار اور پی ٹی آئی سمیت دیگر نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ ملک میں عام انتحابات کے معاملے پر مذکورہ درخواست پر یہ باقاعدہ پہلی سماعت ہے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کےخلاف  کیس کی سماعت بھی آج ہو گی، جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں لارجر بینچ ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا۔ جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی لارجر بینچ میں شامل ہوں گے۔

مزیدخبریں