ججز اختلافات، جنگ کا میدان بھڑک اٹھا

تحریر: عامر رضا خان

Sep 23, 2024 | 17:31:PM
ججز اختلافات، جنگ کا میدان بھڑک اٹھا
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

پاکستانی سپریم کورٹ میں ہلکی پھلکی نوک جھونک، اختلافات تو ہوتے رہتے ہیں، قانونی موشگافیاں بھی ہوتی ہیں لیکن آج جاری کیے جانے والے 8 رکنی اکثریتی تفصیلی فیصلے کی تیز ہوا نے تو اُس راکھ کو ہٹا کر شعلوں کو باہر نکالا ہے جو اندر ہی اندر بھڑک رہے تھے، معاملہ تھا مخصوص نشستوں کا جس پر 13 میں سے 8 ججز نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا تھا، لیکن دو ججز نے جو اختلافی نوٹ لکھا تھا اس کو لیکر تفصیلی فیصلہ جو 70 صفحات پر مشتمل ہے میں متوقع چیف جسٹس آف پاکستان سید منصور علی شاہ کی جانب سے جو لکھا گیا ہے اس نے اس آگ کا دھواں عوام کو بھی دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں بغیر کسی لگی لپٹی کے لکھا گیا ہے کہ 2 معزز ججز کے اختلافی نوٹ پڑھ کر افسوس ہو ا، 2 معزز ججز نے کہا 12 جولائی کا اکثریتی فیصلہ آئین کے مطابق نہیں، 13 رکنی فل کورٹ میں سے 8 ججز نے اکثریتی فیصلہ دیا تھا، 2 ججز نے اپنے نوٹس میں الیکشن کمیشن کو اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کی آبزرویشن دی، جس انداز میں 2 ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں، اس طرح ساتھی ججز بارے رائے دینا مناسب نہیں، یہ سپریم کورٹ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس امین الدین خان نے 3 اگست کو اختلافی نوٹ جاری کیے، قانونی معاملات پر ہر جج اپنی رائے دینے کا حق رکھتا ہے، جس انداز میں 2 ججز نے اکثریتی فیصلے کو غلط کہا یہ نظام انصاف میں خلل ڈالنے کے مترادف ہے، پی ٹی آئی کی  کیس میں فریق بننے کی درخواست فل کورٹ کے سامنے موجود تھی، عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے، الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے، الیکشن کمیشن8 فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا،مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کیا جائے، اردو ترجمہ کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کیا جائے، انتخابی عمل میں بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے، انتخابی تنازعہ بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آپ کا موبائل پھٹ جائے گا اور آپ مرجائیں گے

یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا، جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ ججز کے  منصب کے منافی ہے، الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہیں، عوام کی خواہش اور جمہوریت کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہیں، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے۔

عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جزو ہے، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ بنانے کا اختیار دیتا ہے، یہ عدالت متعدد مقدمات میں کہہ چکی کہ مکمل انصاف کرتے ہوئے عدالت کسی تکنیکی اصول کی پابند نہیں، حیران کن طور پر الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، الیکشن کمیشن کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے، بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کر دیئے جاتے تو ابہام پیدا ہی نہ ہوتا، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکمنامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے، عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے۔

پارٹی کے اندرونی معاملے پر شہریوں کے ووٹ کے بنیادی حقوق کو ختم نہیں کیا جا سکتا، بلے کے نشان کا فیصلہ نظرثانی میں زیرالتوا ہے، اس لئے اس پر رائے نہیں دے سکتے، سپریم کورٹ نے الیکشن رولز کی شق 94 کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا، رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو، رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دینا الیکشن کمیشن کی جانب سے  اضافی سزا ہے۔

میں نے بغیر لگی لپٹی کے یہ فیصلہ لکھ دیا ہے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ اصل مدعا ہے کیا، 8 ججز کے اس فیصلے میں براہ راست الیکشن کمیشن کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ وہ فروری 2024 میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا، یہ  انتخابات کے حوالے سے شفافیت کے اوپر سوال اٹھاتا ہے، ساتھی ججز کے حوالے سے بھی لکھا گیا ہے کہ ان کا اختلافی نوٹ ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے جس کی جانب سے جو ری ایکشن سامنے آیا تھا اس کو تقویت دینے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے خط تحریر کیا تھا، جس کے مطابق مخصوص نشستوں کے حوالے سے اسمبلی قانون سازی مکمل کرچکی، جس کا اطلاق حال اور ماضی کے تمام معاملات میں ہوگا۔

مزید پڑھیں: آئینی اصلاحات اور سیاسی جمود 

اس خط کے بعد معاملہ تو کلیئر ہوچکا کہ اب اس کیس کے تفسیلی فیصلے پر الیکشن کمیشن عملدرآمد کے لیے ممکنہ طور پر کہے گا کہ وہ اب اس فیصلے کا پابند نہیں رہا، لیکن اس فیصلے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے، یہ ایسے وقت میں آیا جب نئے آرڈیننس پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اجلاس ہونا تھا، جس مین ایک رکن کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شامل کیا، جسٹس امین الدین کو جسٹس منیب اختر کی جگہ شامل کیا، یہ وہی جج ہیں جنہوں نے اختلافی نوٹ لکھا تھا، الیکشن کمیشن نے قانونی مشاورت کا فیصلہ کیا ہے، کل دوبارہ اجلاس بلایا گیا ہے، یوں تاثر یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی صورت اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔