(24نیوز)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کسی بھی طرح کے 'امن مذاکرات میں مصروف نہیں اور متحدہ عرب امارات کسی بھی طرح سے سہولت کار کا کردار ادا نہیں کررہا ، پاکستان مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا ،حکومت، فوج اور آئی ایس آئی سمیت تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں ،افغانستان کی تمام خرابیوں کا ذمے دار صرف طالبان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا،دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے ۔
ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں میزبان آندریا سانکے کے سوال کو درست کرنا چاہتا ہوں کہ کیا متحدہ عرب امارات افغانستان میں امن مذاکرات میں زیادہ دلچسپی لینے کے بجائے پاکستان اور بھارت کے مابین امن مذاکرات کے خفیہ دور میں سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اس وقت کوئی امن مذاکرات نہیں کر رہے ہیں اور متحدہ عرب امارات کسی بھی طرح کے سہولت کار کا کردار ادا نہیں کررہا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے ”ثالثی کے کردار“کے بارے میں کہانیاں دیکھی ہیں لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات ایک دوست ملک ہے اور اس کے پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، تمام دوست ممالک مستقل یہ کہتے رہے ہیں کہ ایٹمی طاقت کے حامل دونوں ملکوں کو جنگ کی راہ نہیں اپنانی چاہئے اور مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ مذاکرات ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آپ پاکستان کے بیانات کو دیکھیں، وزیر اعظم عمران خان کے انتخابات میں کامیابی کے بعد دیے گئے بیان کو دیکھیں آپ امن کی طرف ایک قدم اٹھائیں گے، تو ہم دو اٹھائیں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ مفاہمت کی پیشکش کی تھی کیونکہ ہم ایک حکومت کی حیثیت سے عوام پر مبنی ایجنڈا رکھتے ہیں، ہم معاشی تحفظ چاہتے ہیں، ہم اپنے معاشی استحکام پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں امن کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے مشرقی پڑوسی کے ساتھ ساتھ مغربی محاذ پر بھی قیام امن کی ضرورت ہے لہٰذا بات چیت ہی اصل حل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت پاکستان کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ وہ بات کرنے پر راضی ہے تو پھر اسے سازگار ماحول بنانا ہو گا جسے اس نے 5 اگست 2019 کو اٹھائے گئے اقدامات سے سبوتاژ کردیا۔ انہوںنے کہاکہ کشمیریوں سے ان کی ریاست کا حق چھین لیا گیا، انہیں اجنبی قرار دے کر حقوق سے محروم کردیا گیا اور وہ اب بھی ڈبل لاک ڈاو¿ن میں ہیں، ہم صرف کووڈ لاک ڈاو¿ن کا سامنا کر رہے ہیں ،کشمیریوں کو کووڈ لاک ڈاو¿ن کے ساتھ ساتھ فوجی محاصرے کا بھی سامنا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ تو ہم اس ماحول میں لوگوں سے کیسے بات کریں گے، آپ کشمیریوں کو راحت دیں اور انہیں ریاست کا درجہ دیں۔انہوںنے کہاکہ یہاں تک کہ ہندوستان کے اندر سیکولر آوازوں نے بھی کہا ہے کہ ہندوستانی حکومت کی کشمیر پالیسی ناکام ہوچکی ہے، وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کے لیے یہ پالیسیاں مرتب کی گئی تھیں لہٰذا ان پالیسیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تشدد اور امن ایک ساتھ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہم نے انہیں یہی بات سمجھانے کی کوشش کی کہ جنگ بندی کے لیے تشدد میں کمی انتہائی ضروری ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ لوگوں کی جانب سے تاثر غلط ہے کہ افغانستان میں تشدد کا تعلق طالبان سے ہے، افغانستان کی تمام خرابیوں کا ذمے دار صرف طالبان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ وہاں کالعدم داعش جیسی دہگر دہشت گرد تظیمیں بھی فعال ہیں۔انہوںنے کہاکہ افغانستان میں ایک ایسا عنصر ہے جو جنگ کے ماحول سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے اور جو امن کا دشمن ہے، طالبان پر پاکستان کے اثرورسوخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، ہم ان سے اس لیے بات کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان میں ان کی بات مانی جاتی ہے اور دو دہائیوں کی لڑائی کے بعد دنیا کو بھی یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ آپ ان کو مرکزی دھارے کا حصہ بنائے بغیر امن قائم نہیں کر سکتے۔
میزبان نے کہا کہ پاکستان میں تو دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی ہے لیکن افغانستان میں نہیں جس پر شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ افغانستان میں یہ اس حد تک کم نہیں ہوئے، جس حد تک ہونا چاہیے تھا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان مستقل بئٹھ کر بات چیت کرے پر زور دے رہا ہے۔ان سے پروگرام میں میں مزید سوال پوچھا گیا کہ طالبان کو سیاسی جماعت کے طورپر تسلیم کر کے ہم کس طرح کی مثال قائم کریں گے اور کیا یہ انتہا پسندی کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے تو وزیر خارجہ نے جواب دیا ہم کسی بھی طرح کے دہشت گرد عناصر کو کس طرح انعام دے سکتے ہیں، پاکستان نے دہشت گردی میں 83،000 جانیں گنوا دی ہیں اور اس کی بہت بھاری معاشی قیمت ادا کی ہے۔
افغانستان میں انتہا پسند کا نظریے کے فروغ کے خدشات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ افغانستان آج جمہوری ملک ہے، افغانستان میں خواتین کا اپنا ایک کردار ہے اور آپ انہیں بند کر کے پنجرے میں نہیں رکھ سکتے، لڑکیاں اسکول جانا چاہتی ہیں اور اس بات کا احترام کیا جانا چاہیے، طالبان کو نئی حقیقت کو قبول کرنا پڑے گا اور گولی کے بجائے ووٹ کے حق کی جانب قدم بڑھانا پڑے گا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ جب جمہوری افغانستان انتخابات ہوں گے اور رائے دہندگان طالبان کو کسی بھی حکومت میں تسلیم نہیں کریں گے تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ اس رائے کا احترام کریں گے؟، اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ لوگوں میں مقبول ہیں، وہ بیلٹ باکس پر اپنی مقبولیت کی جانچ کیوں نہیں کرتے اور اگر افغانستان کے عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے ہیں تو ہم اس کا احترام کریں گے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ طالبان کو بدلنے کا ایک موقع ضرور دینا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں۔پنجاب کے 25 اضلاع میں کالج بند کرنے کا فیصلہ ۔۔ کون کونسے اضلاع شامل ؟ جانیے