سویلینز کے ٹرائل، لارجر بینچ کیلئے معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا گیا
مجھے یہ سوچ کر راتوں کو نیند نہیں آتی کہ میرا بیٹا زندہ بھی ہے یا نہیں؟ حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی آبدیدہ ہو گئے
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ نے لارجر بنچ کی تشکیل کیلئے معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بجھوا دیا۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل تھے۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ عید پر 20 ملزم رہا ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں، متفرق درخواست کے ذریعے رہائی پانے والوں کی تفصیل جمع کرائی ہے،جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ رہا ہونے والے ملزموں کیخلاف اب کوئی کیس نہیں ہے؟
اعتزاز احسن نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر جواب دیا کہ ان ملزموں کو سزا یافتہ کر کے گھر بھیج دیا گیا ہے، ایک بچے کو ٹرائل کئے بغیر سزا یافتہ کیا گیا وہ اب چھپتا پھر رہا ہے، یہ جو کچھ بھی ہوا ہے بڑا بے ترتیب سا ہوا ہے، اٹارنی جنرل کی جو پرفیکشن ہوتی ہے وہ اس کیس میں نظر نہیں آئی،جسٹس امین الدین نے دریافت کیا کہ آپ جس کی بات کر رہے ہیں وہ اٹارنی جنرل کی جمع کرائی فہرست میں ہے؟ اعتزاز احسن نے بتایا کہ وہ اس فہرست میں شامل ہے،عدالت نے اٹارنی جنرل کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔
درخواستگزار جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بنچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ 9 رکنی بنچ کی تشکیل کے لیے معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے،اس موقع پر اعتزاز احسن اور دیگر وکلا نے عدالت سے فیصلے ریکارڈ پر لانے کی استدعا کردی، وکلا نے مؤقف اپنایا کہ 20 ملزموں کی حد تک جو فیصلے سنائے گئے وہ ریکارڈ پر لائے جائیں،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم ان سے فیصلوں کی نقول مانگ لیتے ہیں، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ہمیں پتہ تو چلے ٹرائل میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔
دوران سماعت حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی آبدیدہ ہو گئے,حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ مجھ پر جو بیت رہی ہے آپ ججز صاحبان کو اندازہ نہیں ہے، میرا بیٹا فوج کی حراست سے لاپتہ ہو گیا،مجھے یہ سوچ کر راتوں کو نیند نہیں آتی کہ میرا بیٹا زندہ بھی ہے یا نہیں، عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاملہ جلد حل کرنے کی ہدایت کر دی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی نقول طلب کر لیں،وکلاء کے دلائل کے بعد سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بنچ نے مرکزی درخواست گزاران کے اعتراض کے بعد معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بجھوا دیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے 9 رکنی لارجر بینچ بنانے کی اپیل کی جا چکی ہے،23 اکتوبر 2023ء کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا،سپریم کورٹ نے 4-1 کے تناسب سے اکثریتی فیصلہ سنایا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
فیصلے میں آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کی ذیلی شقیں 1 اور 2 کالعدم قرار دی گئی تھیں،فیصلے میں آرمی ایکٹ کا سیکشن 59 (4) بھی کالعدم قرار دیا گیا تھا،فیصلے میں کہا گیا کہ 9 اور 10 مئی کے ملزمان کا ٹرائل متعلقہ فوجداری عدالتوں میں ہو گا، سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔
13 دسمبر 2023ء کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کیا تھا،فیصلے کے خلاف نگراں وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع اور وزارتِ قانون سمیت 17 اپیلیں دائر کی گئیں۔
سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن، کرامت علی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان ہیں۔