خطرناک کیمیکل سے پکے آموں کو کیسے کھایا جائے؟

Apr 24, 2025 | 12:28:PM
خطرناک کیمیکل سے پکے آموں کو کیسے کھایا جائے؟
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)حال ہی میں ایک نوجوان پیشہ ور خاتون نے پیٹ کے پھولنے، متلی اور طبیعت کی خرابی کی شکایت کے بعد ماہر غذائیت سے رجوع کیا، حالانکہ وہ ہمیشہ گھر کا کھانا کھاتی ہیں اور اپنے ساتھ پانی کی بوتل رکھتی ہیں،انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے لیے تازہ آم سے بنی ہوئی سلاد دفتر کے لیے تیار کی تھی، آم انہوں نے صبح جاگنگ کے بعد راستے سے خریدا تھا۔

ماہرین نے جب آم کا نمونہ لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ کیلشیم کاربائیڈ کے ذریعے مصنوعی طور پر پکایا گیا تھا جو کہ ایک خطرناک کیمیکل ہے۔

آم کے موسم میں جب مانگ میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے تو بعض کاشتکار جلد منافع کمانے کی خاطر پھلوں کو مصنوعی طریقے سے پکاتے ہیں، یہ عمل انسانی صحت کے لیے بھی سنگین خطرات کا باعث بن سکتا ہے ان مصنوعی طریقوں میں استعمال ہونے والے کیمیکلز مختصر اور طویل مدت میں جسم پر مضر اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

مصنوعی طور پر آم پکانے کے طریقے
آم کو مصنوعی طریقے سے پکانے کے دو عام طریقے ہیں، ایک، کیلشیم کاربائیڈ کا استعمال، اور دوسرا، ایتھیلین گیس سے پکانا۔

کیلشیم کاربائیڈ نمی کے ساتھ تعامل کرکے ایسیٹیلین گیس خارج کرتا ہے، جو آم کو تیزی سے پکاتا ہے مگر اسی گیس میں بعض اوقات سنکھیا (آرسینک) اور فاسفورس جیسے مضر مادوں کی موجودگی پائی جاتی ہے جو انسانی جسم کے لیے زہریلے ثابت ہو سکتے ہیں۔

دوسرا طریقہ ایتھیلین ٹریٹمنٹ کہلاتا ہے، جس میں آم کو ایتھیلین گیس کے سامنے رکھا جاتا ہے تاکہ وہ قدرتی طریقے سے جلد پک جائے تاہم اگر یہ عمل غیر سائنسی طریقوں سے کیا جائے تو یہ بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، خصوصاً جب گیس کی مقدار یا دورانیہ درست نہ رکھا جائے۔

آموں کو ایتھیلین گیس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں پھل میں تبدیلیاں آتی ہیں، اس میں نرمی آتی ہے، اس کا رنگ اور ذائقہ بدل جاتا ہے۔

مصنوعی طور پر پکے آموں کی غذائیت میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے ان میں فائبر کی مقدار گھٹ جاتی ہے، جبکہ وٹامنز اور منرلز کی سطح بھی کم ہو جاتی ہے خاص طور پر ایسکوربک ایسڈ (وٹامن C)، سائٹرک ایسڈ اور مالیک ایسڈ کی مقدار تیزی سے کم ہو جاتی ہے۔

قدرتی طور پر پکے آم میں آئرن، زنک اور کاپر جیسے اہم معدنیات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جبکہ کیمیکل سے پکے آم میں یہ اجزاء انتہائی کم سطح پر پائے جاتے ہیں اسی طرح، فولیٹ اور دیگر ٹریس منرلز کی کوالٹی بھی متاثر ہوتی ہے، جو مجموعی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

اگر کیمیکل سے پکے آم طویل عرصے تک استعمال کیے جائیں تو یہ اعصابی نظام کو متاثر کر سکتے ہیں اس کے نتیجے میں چکر آنا، سردرد، تھکن اور موڈ میں اتار چڑھاؤ جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں،کیلشیم کاربائیڈ سے خارج ہونے والی ایسیٹیلین گیس سانس کی نالی پر اثرانداز ہو سکتی ہے، جس سے گلے میں جلن، کھانسی اور سانس لینے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے آرسینک اور فاسفورس جیسی مضر کیمیکلز ہونے پر پانی کی کمی، جلد پر زخم اور حتیٰ کہ کینسر کے خطرات بھی بڑھ سکتے ہیں۔

مصنوعی آم کھانے سے اکثر افراد کو منہ کے چھالے، پیٹ میں درد، قے، دست اور نظامِ ہضم کی دیگر کمزوریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مسلسل استعمال سے آنتوں کی سوزش اور خوراک کے جذب میں رکاوٹ جیسی پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں، جو مجموعی صحت کو متاثر کرتی ہیں۔

محفوظ طریقے سے آم کیسے کھائے جائیں

 آم کو کم از کم 10 منٹ پانی میں بھگوئیں

کیمیکل واشز کا استعمال نہ کریں، جو کورونا کے دور میں عام ہو گئے تھے

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آم خریدتے وقت محتاط رہیں اگرچہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مصنوعی آم پانی میں تیرتے ہیں یا ان کے تنے کے حصے پر سفید دھبے ہوتے ہیں، مگر یہ علامات حتمی نہیں ہوتیں۔ جب تک لیبارٹری ٹیسٹ نہ ہو، اس کا مکمل پتہ لگانا مشکل ہے۔