عمران خان بچ نکلے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
صدر مملکت کی ایک متنازعہ ٹویٹ اور اس کے بعد ان پر ہونیوالی تند و تیز تنقید سے ایسا لگ رہا تھا کہ اب صدر مملکت صدارتی محل میں محصور ہو چکے ہیں ۔ان کیخلاف شکنجہ کسا جا چکا ہے ۔یہ پیش گوئی بھی کی جا رہی تھی کہ جلد یا بدیر وہ اپنی مقررہ مدت مکمل کرنے کے بعد مستعفیٰ ہو جائینگے ۔اس مختصر وقت کے دوران بھی انہیں کوئی بھی فیصلہ لینے کا ھکم جاری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔لیکن یہ تمام اندازے اور دعوے آج اس وقت غلط ثابت ہو گئے جب انہوں نے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے لیے چیف الیکشن کمیشنر کو ایک خط لکھا ۔جس میں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو یادہانی کرائی کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کو تحلیل کیا، صدر آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تحلیل کی تاریخ کے 90 دن میں تاریخ مقرر کرنے کے پابند ہیں۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ خط میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو آج یا کل صدر کے ساتھ ملاقات کے لیے مدعو کیا جاتا ہے تاکہ عام انتخابات کے لیے مناسب تاریخ طے کی جا سکےصدر مملکت کے آج کےخط نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ تو کسی دباو کا شکا ہے اور نہ کسی پریشر کو خاطر میں لا رہے ہیں ۔مخالفین جتنا مرضی زور لگا لے وہ اپنی پارٹی کے وفادار ہی رہے گے۔۔اگر بات کی جائے تو 90 روز مین الیکشن کرانے کی تو اس یک نکاتی ایجنڈے پر مسلم لیگ ن کے علاوہ باقی تمام جماعتیں یک زبان نظر اتی ہیں ۔لیکن اس ساے عمل میں الیکشن کمشن کا کردار خاصا مشکوک ہے ۔حال ہی میں پاکستان الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد جو کہ پنجاب کی نگران حکومت میں قلیدی عہدے پر براجمان ہیں نے ایک نیا پنڈرورا باکس کھول دیا ہے۔انہوں نے موقر اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ عام انتخابات مئی 2024 سے قبل ممکن نہیں ہیں،یونی انتخابات تین ماہ یا چھ ماہ میں نہیں نو ماہ بعد ہونے کا امکان ہے۔جس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ 2023 کی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں چار ماہ میں ہی مکمل ہوسکیں گی اور پھر اس مردم و خانہ شماری کی بنیاد پر انتخابی فہرستوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ نظرثانی شدہ انتخابی فہرستوں پر اعتراضات بھی ہوں گے اور پھر ووٹر فہرستوں کی طباعت کا عمل مکمل ہونے میں بھی تین ماہ درکار ہوں گے، دو ماہ بعد انتخابی شیڈول کے اجرا کےلیے 54؍دن چاہئیں، اس طرح آئندہ عام انتخابات کا انعقاد 9؍ماہ یامئی 2024 سے قبل ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔کنور دلشاد کا یہ بیان اپنی مثال آپ ہے۔ان کی یہ رائے الیکشن کو مزید تاخیر کی جانب دھکیلنے کی کوشش ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ ایک منتخب اسمبلی جیسے تیسے تقریبا اپنی مقررہ مدت مکمل کرنے کے بعد تحلیل ہوئی ۔ان پانچ برسوں کے دوران وہ ادارہ جس سے کنور دلشاد بھی منسلک رہے نے الیکشن کرانے کے لیے کوئی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے۔کنور دلشاد الیکشن کی تاخیر کے لیے جو وجوہات بتا رہے ہیں ان پر 5 برس کے دوران کام کیوں نہیں کیا گیا۔اب جب انتخابات سر پر ہیں تو ان کو تاخیر کا شکار بنانے کے لیے نت نئے بیانیے گھڑے جا رہے ہیں ۔الیکشن کمیشن کا کردار اس حوالےس ے بھی مشکوک ہےکہ اس نے پہلے الیکشن تاخیر سے کرانے کا کا حکم نامہ جاری کیا اور اس کے بعد اس ادارے کو خیال آیا کہ الیکشن سے متعلق بڑی جماعتون سے مشاورت کی جا ئے۔یہ طریقہ کار بھی سمجھ سے باہر ہے کہ کوئی بھی فیصلہ جاری کرنے سے پہلے مشاورت کرنا ضروری تھی کہ فیصلہ صادر کرنے کے بعد دکھاوے کے لیے جماعتوں کو بلایا جائے اور بعد مین تمام تر ذمہ داری ان کے کندھوں پر لاد دی جائے۔دوسری جانب مسلم لیگ ن کے علاوہ تقریبا تمام جماعتیں ہی اب مقررہ وقت پر الیکشن کرانے کے لیے زور ڈال رہی ہے اور مطالبات کو منوانے کے لیے تند و تیز بیانات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔سب سے اہم بیان پی ڈی ایم ترجمان حافظ حمد اللہ کا ہے جنہوں نے کل ایک نجی ٹی وی شو میں بات کرتے ہوئے نگران حکومت پر سخت تنقید کی اور ساتھ مین مقررہ مدت میں الیکشن کرانے کے لیے تحریک چلانے کا عندیہ دیا۔ پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمد اللہ کا کہنا ہے کہ فروری میں انتخابات نہ ہوئےتوپھر خاموش آمریت ہوگی اور ایسے عمل پر سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے تحریک چلانے پرمجبورہوں گی۔ مجھےنظرآرہا ہےاورمحسوس کررہا ہوں کہ یہ مجبوری سیاستدانوں پر آئےگی،مزید دیکھیے اس ویڈیو میں