(فرزانہ صدیق) توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں چیئر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو سزا کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو 8سوالات پر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا، ٹرائل کورٹ نے اُن سوالات کا جواب دیے بغیر اپنے پہلے آرڈر کو ہی درست قرار دیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی زیر سر پرستی درخواست پر سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو بھی نہیں مانا،ریکارڈ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کمپلینٹ دائر کرنے کا کوئی اجازت نامہ موجود نہیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ میں موجود ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ اجازت سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی ہے،الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر اور 4ممبران پر مشتمل ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے مداخلت کی اور لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟ وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے، ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت خامیاں ہیں، اس کیس میں کمیشن کی جانب سے کوئی authorization نہیں ہے، یہ کیس سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے authorize کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے authorization پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کے دستخط ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو بھی نہیں مانا، سزا معطلی کے تین گراؤنڈز ہیں، ایک تو شارٹ سینٹینس ہے، دوسرا کیس کے عدالتی اختیار کا معاملہ ہے، سیشن عدالت براہ راست الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کا اختیار نہیں رکھتی، عدالتی دائرہ اختیار کا معاملہ پہلے نمٹایا جانا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن کی تعریف کے مطابق الیکشن کمشن چیف اور ممبران پر مشتمل ہوتا ہے، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ اپنے کسی ملازم کو شکایت دائر کرنے کا اختیار دے، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن کو اختیار دیتا ہے۔
کمپلینٹ ٹرائل کے لیے ڈائریکٹ سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی
اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل منظوری کا فیصلہ 4 اگست کی شام کو ملا، 5 اگست کو خواجہ حارث کے منشی کو اغواء کیا گیا، خواجہ حارث کا بیانِ حلفی موجود ہے، خواجہ حارث نے وجہ لکھی کہ کیوں وہ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہو سکے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کیس قابلِ سماعت ہونے پر دوبارہ دلائل سننے کا حکم دیا،ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے جج کے فیصلے کی خلاف ورزی کی،ہمارا اعتراض یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ درست فورم پر دائر نہیں کی گئی، الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کی جا سکتی تھی، کمپلینٹ ٹرائل کے لیے ڈائریکٹ سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی، قانون میں طریقہ کار دیا گیا ہے کہ کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی۔
عدالت میں رش، اے سی نے کام کرنا چھوڑ دیا
کمرہ عدالت میں گنجائش سے زیادہ افراد ہونے کے باعث حبس اور گرمی ،کمرہ عدالت میں لگے اے سی بھی کام کرنا چھوڑ گئے،لطیف کھوسہ نے ججز سے شکوہ کیا کہ آپ کو شاید تھوڑی بہت ہوا آ رہی ہو، ہمیں تو بالکل نہیں آ رہی، چیف جسٹس نے کہا کہ اے سی کے وینٹ کے سامنے نا کھڑے ہوں تاکہ ہوا نا رکے۔