(فرزانہ صدیق)توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک متلوی کر دی گئی جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل جاری ہیں ۔امجد پرویز نے دلائل کیلئے تین گھنٹے مانگ لیے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کل 11 بجے کیس کی دوبارہ سماعت کریں گے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ مختصر سزا ہے جو بغیر نوٹس بھی معطل ہو جاتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کالعدم قرار دینے کی درخواست کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس طارق محمود جہانگیری کررہے ہیں ۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ حق دفاع سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ میں زیر سماعت ہے،حق دفاع کی درخواست پر نوٹس جاری کئے جانے کیخلاف چیئرمین پی ٹی کی درخواست سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے،سپریم کورٹ اور سنگل بینچ میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے یہ بینچ اس معاملے پر کوئی ابزرویشن نہیں دے سکتا ۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کی 6 ماہ کی سزا معاف ہو چکی ہے، لطیف کھوسہ
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے ہیں کہ یہ بینچ تو سپریم کورٹ اور سنگل بینچ کے درمیان سینڈوچ ہوگیا ، وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہ اگست 2023 کو اس کیس کا نوٹس ہوا تھا،سزا معطلی ضمانت سمیت بہت سارے چیزیں انہوں نے بتائی،حق دفاع، درخواست قابل سماعت و دیگر بہت سارے معاملات سنگل بینچ کے سامنے زیر سماعت ہیں ، سپریم کورٹ بھی اس معاملے میں فیصلے کے انتظار میں بیٹھی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سنگل بنچ اور سپریم کورٹ کا کہہ رہے تو کیا یہ بنچ سینڈوچ ہے کیا ؟عدالتی دائر اختیار ، حق دفاع سمیت بہت سارے چیزیں زیر بحث ہیں،انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں سنا گیا، گراؤنڈز ان کے پاس ہر حال میں رہیں گے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ عدالت اس وقت سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے،سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹس پر گہرائی میں نہیں جائے گی، یہ سوالات تو آئیں گے کہ ملزم کو حقِ دفاع ہی نہیں دیا گیا،وکیل امجد پرویز بولے کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا، گوشوارے تو اپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کرائے جاتے ہیں نا،یہ تو کلائنٹ نے بتانا ہوتا ہے کہ اُس کے اثاثے کیا تھے،چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی کے پاس تین سال تک کوئی جیولری یا موٹرسائیکل تک نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیں:ماتحت عدلیہ سے غلطی ہوئی ، توشہ خانہ کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس
چیف جسٹس عامر فاروق بولے کہ مجھے تو کوئی اپنے ریٹرنز فائل کرنے کا کہے تو میں تو خود نہیں کر سکتا، وکیل نے جواب دیا کہ اکاؤنٹنٹ اپنی طرف سے تو کچھ نہیں لکھتا کلائنٹ ہی بتاتا ہے ،چیف جسٹس پھر بولے کہ ہم اگر چہ لیگل کمیونٹی سے ہیں لیکن ٹیکس ریٹرن تو نہیں بھر سکتے ،وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہانہوں نے گوشواروں میں چار بکریاں ظاہر کیں لیکن باقی متعلقہ چیزیں ظاہر نہیں کیں۔
چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ ان کے تین سوالات ہیں ایک مجسٹریٹ والا ہے ایک دورانیے والا ہے ایک اتھارٹی والا ہے ،امجد پرویز نے جواب دیا کہ ان کا سوال یہ بھی ہے ان کو آخری دن سنا نہیں گیا ان کا حق دفاع بھی ختم ہوا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس گراؤنڈ پر اپیل مسترد کردی جائے ، میرا مدعا یہ ہے کہ کم از کم اسٹیٹ کو نوٹس کرکے شنوائی کا موقع دیا جائے ، چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر آپ کی بات لی جائے، حکومت کو نوٹس جاری کردیئے جائیں تو حکومت آ کر کیا کرے گی؟امجد پرویز نے جواب دیا کہ ملزم تو حکومت کی تحویل میں ہے نہ، یہ قانون کا تقاضا ہے، قانون آپ کے سامنے ہے، سادہ زبان ہے،چیف جسٹس بولے کہ اگر تین ماہ کی سزا ہو تو اس میں بھی نوٹس جاری کرنا ہوتا ہے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ تین ماہ کی سزا میں عدالت کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ سزا اُسی وقت معطل کر سکتی ہے،قانون میں سزاؤں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، مختصر سزا پر بھی سزا معطلی حق نہیں بلکہ عدالت کا اختیار ہوتا ہے، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی ایک سال کی سزا تین ماہ بعد معطل کی گئی تھی،چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ تین سال کی سزا میں بھی ریاست کو نوٹس لازمی ہے؟امجد پرویز بولے کہ استدعا ہے کہ عدالت مزید دلائل سننے سے پہلے اس بنیادی نکتے پر فیصلہ کرے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دئیے کہ آپکا یہ نکتہ نوٹ کر لیا ہے، مختصر سزا ہے مزید دلائل دیں، امجد پرویز نے کہا کہ استدعا ہے کہ عدالت مزید دلائل سننے سے پہلے اس بنیادی نکتے پر فیصلہ کرے، جسٹس طارق محمود جہانگیری بولے کہ آپ کا یہ نکتہ نوٹ کر لیا ہے، مختصر سزا ہے مزید دلائل دیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر ایف سی تعینات
اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی وکلاء کی جانب سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے،جس کے باعث اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر پولیس اور ایف سی اہلکار تعینات کر دیئے گئے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے
چیرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھا امجد پرویز صاحب کیا آپ کو کچھ کہنا ہے؟ جس پر امجد پرویز نے کہا کھوسہ صاحب (لطیف کھوسہ) میرے نکاح کے بھی گواہ ہیں، امجد پرویز ایڈووکیٹ کی بات پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
اس سے قبل عدالت میں دلائل دیتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی 6 ماہ کی سزا معاف ہو چکی ہے ۔
خواجہ حارث کے پیش نہ ہونے پر ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے ،وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا، چیئرمین پی ٹی آئی کی 3گراؤنڈز پر سزا معطلی کے لیے دلائل دوں گا،سب سے پہلے عدالت نے دائرہ اختیار کو طے کرنا ہے، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن ڈسڑکٹ الیکشن کمشنر کو اتھارٹی دے رہا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو ٹرائل کورٹ نے 3سال کی سزا سنائی، صدر پاکستان نے 14 اگست کو قیدیوں کی 6ماہ سزا معاف کی، اس لحاظ سے چیئرمین پی ٹی آئی کی 6ماہ کی سزا معاف کی جا چکی ہے۔