9 مئی سزاؤں پر یورپی و برطانوی ردعمل ، حاضر ہے آئینہ 

تحریر : احمد منصور 

Dec 24, 2024 | 15:36:PM

یورپی یونین اور برطانیہ و امریکہ کی طرف سے پاکستان میں 25 سول ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائے جانے پر جو فوری سفارتی ردعمل سامنے آیا ہے اس نے اقوام مغرب کے دوہرے معیارات کا پردہ چاک کر دیا ہے،  ایک طرف اسرائیل ہے کہ جس کی فوجی مشین انتہائی بے رحمی سے غزہ اور لبنان میں سویلینز کا قتل عام کر رہی ہے لیکن نہ تو یورپی یونین نے اس پر کوئی سخت اسٹینڈ لیا ہے اور نہ ہی  برطانیہ نے کوئی دکھائی دینے والی مؤثر کارروائی کی ہے۔ شہریوں کے سیاسی  و جمہوری حقوق تو ایک طرف رہے اسرائیل انہیں زندہ رہنے کا حق دینے پر بھی تیار نہیں اور دنیا کے منصفوں اور انصاف کے عالمی علمبرداروں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ 

یورپی یونین اور برطانیہ کی طرف سے جاری کئے گئے حالیہ رسمی سفارتی بیانات کے حوالے سے پاکستانی سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی والوں نے بڑے بلند و بانگ دعوے کرنا شروع کر دیئے ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 25 سول ملزمان کی ملٹری کورٹس سے سزاؤں کے ردعمل میں یورپی یونین اور برطانیہ کیلئے پاکستانی ایکسپورٹس بند ہو جائیں گی، پاکستان کی یہ واحد سیاسی جماعت ہے کہ جو اپنے ملک کی برآمدات کو نقصان پہنچنے پر خوشیاں مناتی ہے، اپنے ملک کی معاشی امداد بند ہونے پر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتی ہے، یورپی یونین اور برطانیہ کے حالیہ رسمی سفارتی بیانات پر اس کلٹ نے جو گھناؤنا اور منفی پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے اس کے توڑ کیلئے پاکستانی عوام اور خاص طور پر بزنس کمیونٹی کو درست حقائق سے فوری طور پر آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ مغربی ممالک میں اپنی برآمدی منڈیوں کے حوالے سے کسی خوف و ہراس کا شکار نہ ہوں۔  

 اسرائیل اور بھارت سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کے قائم کردہ معیارات کے مطابق سب اچھا نہیں ہے اور معاملات پاکستان کے مقابلے می انتہائی زیادہ تشویشناک ہیں، یورپی یونین اور برطانیہ کی طرف سے ان ممالک کی حکومتوں کو برسوں سے اسی طرح کے تشویشناک پیغامات بھی بھجوائے جا رہے ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ان تمام ممالک کے ساتھ یورپی یونین اور برطانیہ کی دوطرفہ تجارت کبھی متاثر نہیں ہوئی، اس لئے جن لوگوں نے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتے ہوئے پاکستان کے صنعتی و تجارتی حلقوں میں خوف و ہراس پھیلانا شروع کر رکھا ہے ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ وہ صرف بھارت کی بین الاقوامی تجارت کا حجم اور اس میں یورپی یونین اور برطانیہ کا شیئر دیکھ لیں تو انہیں سمجھ آ جائے گی کہ ایسے رسمی سفارتی ردعمل کا دوطرفہ تجارت سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔

 مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور سول انتظامیہ نے جس طرح کے غیر انسانی قوانین نافذ کر رکھے ہیں اور پورے ہندوستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے جو انتہائی تشویشناک صورتحال ہے اس کے باوجود اس وقت یورپی یونین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ جی ہاں! سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ۔۔۔۔! 

بھارت اور یورپی یونین کی دو طرفہ تجارت کا حجم پچھلے سال 2023ء میں 124 بلین یورو تھا، جو بھارت کے کل تجارتی حجم کا 12.2 فیصد ہے، امریکہ 10.8 فیصد تجارتی حجم کے ساتھ  بھارت کا دوسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے جبکہ 10.5 فیصد حجم کے ساتھ بھارت کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر چین ہے۔ چوتھا نمبر برطانیہ کا ہے جس کے ساتھ رواں سال 2024ء میں بھارتی تجارت 42 ارب پاؤنڈ سے تجاوز کر گئی جو پچھلے سال 2023ء سے 9.7 فیصد زیادہ ہے۔

پاکستان کی فوجی عدالتوں میں 25 شہریوں کو سزائیں سنانے پر پہلے یورپی یونین نے "تشویش" ظاہر کی ، اس کے بعد برطانیہ کی طرف سے بھی ایک رسمی سفارتی بیان جاری کر دیا گیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان "بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق" کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔

 برطانوی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیئے گئے بیان  میں کہا گیا ہے کہ "برطانیہ پاکستان کی اپنی قانونی کارروائیوں پر خودمختاری کا احترام کرتا ہے لیکن شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شفافیت اور آزادانہ جانچ پڑتال سے محروم ہوتا ہے اور منصفانہ ٹرائل کے حق کو متاثر کرتا ہے۔"

بیان میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ "وہ بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔"

قبل ازیں یورپی یونین نے اتوار کو ایک بیان میں پاکستان کی فوجی عدالت کی جانب سے 25 شہریوں کو سنائی گئی سزاؤں پر تشویش کا اظہار کیا۔

پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر رینی کیونکا نے ایکس پر یورپی یونین کے خارجہ امور کے ترجمان کا یہ بیان شیئر کیا، جس کے مطابق "فوجی عدالت کے یہ فیصلے پاکستان کے بین الاقوامی عہد برائے شہری و سیاسی حقوق (ICCPR) کے تحت کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔"

بیان میں کہا گیا کہ "یورپی یونین کے جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز پلس (GSP+) کے تحت فائدہ اٹھانے والے ممالک بشمول پاکستان نے رضاکارانہ طور پر 27 بین الاقوامی بنیادی معاہدوں، بشمول ICCPR، کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ GSP+ کا درجہ برقرار رکھا جا سکے۔‘

پاکستان نے  یورپی یونین اور برطانیہ و امریکہ کی طرف سے جاری کئے گئے بیانات کو سخت احتجاج کے ساتھ رد کر دیا ہے اور اس سفارتی ردعمل کو غیر ضروری اور پاکستان کی آزادی و خودمختاری کے منافی قرار دیا ہے۔

یاد رہے  کہ برطانیہ خود 29 جولائی 2024ء کو اپنے علاقے ساؤتھ پورٹ میں ہونے والے نسلی فسادات کے ملزمان کو سرسری سماعت کے ذریعے سخت ترین سزائیں دے چکا ہے۔ 3 کمسن لڑکوں سمیت 200 سے زیادہ ملزمان کو سزائیں سنانے کا تیز رفتار عمل شروع کرنے سے پہلے ان کی گرفتاری کیلئے بدترین کریک ڈاؤن بھی کیا گیا، یہ سب کچھ کرتے ہوئے خود برطانیہ نے وہ کنونشنز بھلا دیئے جن کی آج پاکستان کو یاددہانی کروائی جا رہی ہے۔ پاکستان نے اس موقع پر برطانیہ سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ملزمان کی گرفتاری کیلئے بدترین کریک ڈاؤن اور سرسری سماعت کے ذریعے سزائیں سناتے ہوئے اس نے عالمی کنونشنز کی پاسداری نہیں کی بلکہ اس ایشو کو برطانیہ کا داخلی معاملہ سمجھا اور فسادیوں کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچانے کی سپورٹ کی۔ 

پاکستانی حکومت اور میڈیا کی طرف  برطانیہ کو اب بڑا مدلدل جواب دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی فوجی عدالتوں نے سویلینز کے ٹرائلز کے دوران ملک کے آئین اور قانون کی پاسداری کی اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی گائیڈ لائنز پر عمل کیا گیا اور ملزمان کو اپنے موقف کی وضاحت کیلئے ڈیڑھ سال کا طویل وقت بھی دیا گیا جبکہ اس کے مقابلے میں خود برطانیہ میں حالیہ نسلی فسادات کے ملزمان کیخلاف کیسز کی سرسری سماعت کی گئی، پاکستانی عوام اور میڈیا کی طرف سے سامنے آنے والے اس ردعمل میں برطانیہ کی توجہ غزہ میں جاری قتل عام اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی طرف بھی دلائی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ہزاروں شہریوں کا وحشیانہ قتل عام جو نسل کشی بن چکا ہے اسے رکوانا تو مختلف عالمی معاہدوں کے تحت برطانیہ کی ذمے داری بھی ہے اس دوران لاکھوں شہریوں کو زخمی اور بےگھر بھی کیا گیا لیکن برطانیہ نے اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی، پاکستان میں تو ایسی سنگین کوئی صورت نہیں اور تمام معاملات آئین اور قانون کے تحت چل رہے ہیں۔

پاکستانی عوام اور میڈیا کا یہ کہنا بالکل جائز بات ہے کہ برطانیہ اپنے کام سے کام رکھے اور غزہ میں جاری قتل عام اور نسل کشی رکوانے پر توجہ دے جہاں اس کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہے۔ 

پاکستان کے میڈیا اور عوام کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ برطانیہ کو پاکستان کے داخلی قانونی معاملات میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہئے،  خاص طور پر آپریشن گولڈ اسمتھ کے تحت اگر یہ سب کچھ اس سازش کا حصہ دکھائی دے تو یہ مداخلت انتہائی سختی سے رد کی جائے گی کیونکہ کسی عالمی ریکٹ کو کسی بھی صورت میں یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پاکستان کو اپنی ریشہ دوانیوں کی شکار گاہ بنائے۔ کسی ایک ملک کی طرف سے دوسرے ملک کے سیاسی معاملات میں ایسی مداخلت کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ 

اسلام آباد میں یورپی یونین کی سفیر محترمہ رینی کیونکا کو بھی چاہیئے تھا کہ وہ اپنی وزارت خارجہ کو پاکستان میں 9 مئی کے ملزمان کو سزائیں سنانے کے پورے عمل کی درست تصویر کشی والی رپورٹ بھجواتیں۔ کہ کس طرح پورا ڈیڑھ سال ملزمان کے خلاف کیسز زیر سماعت و زیر التواء رہے اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے دی گئی گائیڈ لائنز کی پیروی کی گئی، اس کے بجائے انہوں نے اپنی وزارت خارجہ کے بیان کو ٹویٹ کر کے یہ تاثر دیا کہ وہ بھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس غیر ضروری مداخلت میں شریک ہیں اور اصل صورتحال سے اپنی وزارت خارجہ کو آگاہ کرنے کی اپنی بنیادی سفارتی ذمے داری ادا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں، اس لیئے اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے اپنے منصب کے تقاضوں سے ہم آہنگ مثبت کردار نہیں نبھایا تو بے جا نہ ہوگا۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

مزیدخبریں