(24نیوز)چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ پارلیمان کا متبادل نہیں، خفیہ ووٹنگ ہونی چاہیے یا نہیں فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ پارلیمان کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ اگر آئین کہتا ہے خفیہ ووٹنگ ہو گی تو ہو گی بات ختم ہوجاتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فاضل بینچ نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔پیپلز پارٹی کے سینٹیر رضا ربانی نے اپنے دلائل میں کہا کہ سینٹ الیکشن سیاسی معاملہ ہے ریاضی کا سوال نہیں، سیںیٹ کا الیکشن ارٹیکل 226 کے تحت ہی ہوتا ہے، عارضی قانون سازی کے ذریعے سینٹ الیکشن نہیں ہو سکتا۔کسی کو ووٹ ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، سیاسی معاملات میں سمجھوتے ہوتے رہتے ہیں۔ کئی بار مختلف ایم پی ایز کسی ایشو پر متحد ہو کر سینٹ امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ سینٹ کے لیے خفیہ ووٹنگ نہیں ہو گی۔ آئین یہ بھی نہیں کہتا کہ سینٹ الیکشن قانون کے مطابق ہوں گے۔ آرڈینس کے خلاف کسی ایوان میں قرارداد منظور ہوئی تو وہ ختم ہو جائے گا، پارلیمان نے توثیق نہ کی تو ارڈینس 120 دن بعد ختم ہو جائے گا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس جاری ہونے پر کوئی رائے نہیں دیں گے۔آرڈیننس کا سوال عدالت کے سامنے نہیں۔ جمہوریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے قیادت نہیں، آئین میں پارٹیوں کا ذکر ہے شخصیات کا نہیں، کوئی اوپر سے اپنے فیصلے لاکر نافذ نہیں کر سکتا۔ پارٹیوں کے فیصلے بھی جمہوری انداز میں ہونے چاہئیں۔ کس کو ووٹ دینا ہے یہ فیصلہ پارٹیاں کیسے کرتی ہیں۔
رضا ربانی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل میں کہا کہ مخصوص نشستوں پر الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے، پارٹی لائن پر عمل کرنا سینٹ الیکشن کے لیے لازمی نہیں۔سینٹ الیکشن آئین کے تحت ہوتے ہیں قانون پر نہیں۔ سینٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوتا ہے، تمام ایم پی ایز اپنی انفرادی حیثیت میں ووٹ ڈالتے ہیں۔
فاروق نائیک کے دلائل مکمل ہونے پر (ن) لیگ کے بیرسٹر ظفر اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ سینٹ الیکشن کے بعد صوبائی اسمبلیاں تحلیل بھی ہو سکتی ہیں، صوبائی اسمبلیوں کے دوبارہ انتخابات میں کوئی اور جماعت بھی حکومت میں آسکتی ہے، اگر متناسب نمائندگی پارٹیوں کی ہے تو نئی اسمبلیوں میں کی سینٹ میں کیا پوزیشن ہو گی۔ خفیہ ووٹنگ ختم ہوئی تو جمہوریت کے لئے دھچکا ہو گا۔الیکشن کے نمائندگی خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہی ممکن ہے، تاریخ کے تناظر میں آئین کے آرٹیکل 226 کی تشریح ممکن ہے، الیکشن ایکٹ کی تیاری کے دوران خفیہ ووٹنگ پر بحث ہوئی تھی، تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت نے اس وقت خفیہ ووٹنگ کی حمایت کی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ بار کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ موجودہ حالات میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے، ماضی میں حکومت نے اپنی سیاسی ذمہ داری عدالت پر ڈالنے کی کوشش کی، ماضی میں عدالت نے قرار دیا کہ بنگلا دیش کو تسلیم کرنایا نہ کرنا پارلیمان کا اختیار ہے، ماضی میں بھارتی حکومت نے سپریم کورٹ سے بابری مسجد پر رائے مانگی تھی لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دینے سے انکار کیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں بتایا کہ قانون کیا ہونا چاہیے، اٹارنی جنرل نے یہ نہیں بتایا کہ قانون کیا کہتا ہے؟ انتحابی عمل سے کرپشن ختم کرنا پارلیمان کاکام ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو تعین کرنا ہے سینٹ الیکشن پر ارٹیکل 226 لاگو ہوتا ہے یا نہیں،جو سوال ریفرنس میں پوچھے گئے ہیں اس پر ہی جواب دیں گے۔ ریاست کے ہر ادارے کو اپنا کام حدود میں رہ کر کرنا ہے ۔سپریم کورٹ پارلیمان کا متبادل نہیں، خفیہ ووٹنگ ہونی چاہیے یا نہیں فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ پارلیمان کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ اگر آئین کہتا ہے خفیہ ووٹنگ ہو گی تو ہو گی بات ختم ہوجاتی ہے۔